Topics
س: خواجہ صاحب! زندگی میں اگر عشق و محبت کی چاشنی، وصال یار کی تڑپ، محبت کی جلوہ طرازیاں اور ہجر کی لذت نہ ہوتو یہ پھیکی اور بے مزہ سی ہو جاتی ہے۔ میں عشق حقیقی کی منزل کا تنہا مسافر ہوں۔ بچپن میں اللہ میاں نے اپنی محبت کا مزہ چکھا کر تڑپا کر رکھ دیا۔ اور اسی محبت کی تلاش و جستجو میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔ عشق مجازی کی رنگین کنکریوں سے کھیل رہا ہوں۔ مگر اس حد تک کہ عشق حقیقی کے جذبے کو بھڑکا سکوں۔
میرے دل میں انجانی محبت کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور مجھے یہ یقین ہو چلا ہے کہ اس دنیا میں عشق و محبت کی جتنی قسمیں ہیں مثلاً دولت و جاہ سے محبت، خدا تعالیٰ سے محبت، نیک لوگوں سے محبت الغرض جتنی بھی محبتیں ہیں ان سب کا مخزن کہیں ایک ہی ہے اور میں اس مخزن محبت کا پتہ لگانا چاہتا ہوں۔ میں کافی سوچ بچار اور تجربات کر چکا ہوں۔ مجھے یہ یقین ہو چلا ہے کہ محبت اور عشق ایک بہت بڑی قوت کا نام ہے جو ہر ذی روح کو مختلف اشکال میں ودیعت کی گئی ہے۔ میں اس قوت تک پہنچنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔راستہ دکھایئے!
ج: آدمی کیا ہے، اس کے اندر جذبات کیا ہیں، وہ کیوں کسی کو چاہتا ہے اور کیوں اس کے اندر یہ خواہش ہے کہ کوئی اسے بھی چاہے، یہ سب کوئی معمہ نہیں ہے۔ بات سیدھی اور سادی ہے کہ آدمی کے اندر جو روح کام کر رہی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات تخلیق کی تو اس کے اندر اللہ کا پہلا وصف، محبت منتقل ہوا۔ محبت ایک ایسا وصف ہے جو ہر ذی روح اور غیر ذی روح میں موجود ہے اور یہی وہ وصف ہے جس کے اوپر یہ کائنات گردش کر رہی ہے۔ اس محبت کا ذائقہ چکھنے کے لئے کہیں ماں کے دل میں اولاد کی محبت ڈال دی گئی، کہیں شمع کے لئے پروانے کو جان نثار بنا دیا۔ محبت نہ ہو تو یہ سارا جہان ایک آن کے ہزارویں حصہ میں کھنڈر بن جائے۔
محبت کی کنہ کو سمجھنے کے لئے میرے تجربے میں صرف ایک بات آئی ہے کہ آدمی صرف اللہ کے لئے اللہ کی مخلوق سے محبت کرے اور بلا تفریق مذہب و ملت نوع انسانی اور اللہ کی دوسری مخلوق کی خدمت کو اپنی زندگی بنا لے۔ یہ نسخہ کیمیا اثر ہے۔ پس تجربہ شرط ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔
انتساب
ہر انسان کے اوپر روشنیوں کا ایک اور جسم ہے جو مادی گوشت پوست کے جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ اگریہ روشنیوں کا جسم نہ ہو تو آدمی مر جاتا ہے اور مادی جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے۔
جتنی بیماریاں، پریشانیاں اس دنیا میں موجود ہیں وہ سب روشنیوں کے اس جسم کے بیمار ہونے سے ہوتی ہیں۔ یہ جسم صحت مند ہوتا ہے آدمی بھی صحت مند رہتا ہے۔ اس جسم کی صحت مندی کے لئے بہترین نسخہ اللہ کا ذکر ہے۔
*****