Topics
”ذکر و فکر کی جو تعلیم اور ہدایات دی جائیں ان پر پابندی سے عمل کریں مراقبہ میں کوتاہی نہ کریں“
ذکر کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی مخصوص اسم کا ورد کرنا یا کسی کلمہ کو دہرانا یا تکرار کرنا تاکہ یا اسم کے اندر جو لطیف انوار مخفی ہیں وہ طالب کے ذہن میں متحرک ہو جائیں۔ فکر سے مراد یہ ہے کہ شاگرد کی سوچ کیا ہے؟ مثلاً صلوٰۃ میں شاگرد یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حضور کھڑا ہے اور زبان سے جو کہتا ہے اس پر غور کرتا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کے مطابق روحانی علوم کے طالب علم کو دینی معاملات کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی فہم و فکر سے کام لے کر کائنات کی چیزوں میں تفکر کرنا چاہیئے۔ جس حد تک تفکر سے کام لے کر وہ اپنی فکر کو جلا بخشے گا اسی قدر علوم اس پر آشکار ہوں گے اور اسے علمی ترقی حاصل ہوگی۔ تفکر کرنا، ذہنی یکسوئی حاصل کرنا، کسی نکتہ پر ذہن کو مرکوز کرنا اور اس کی حکمت کا کھوج لگانا ، ریسرچ کرنا۔۔۔ مراقبہ ہے۔ سلسلہ عظیمیہ میں مراقبہ کرنا بطور پریکٹیکل شامل ہے۔ سلسلہ کے اراکین کو اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ وہ دنیاوی کاموں سے فارغ ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات سے نسبت جوڑنے ، اپنے اندر باطنی نگاہ بیدار کرنے کے لئے بتائے ہوئے طریقے پر ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔
مراقبہ دراصل انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی نسبت اور قربت حاصل کرنے کا بہترین اور آسان ذریعہ ہے۔ عظیمی حضرات و خواتین کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنی روز مرہ مصروفیات اور ضروری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے اقدامات کرے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔