Topics
” تمہارے نفسوں کے اندر ہے تم دیکھتے کیوں نہیں۔“ (القرآن)
”لوگوں کے اندر ایسی طرز فکر پیدا کرنا جس کے ذریعے وہ روح اور اپنے اندر روحانی صلاحیتوں سے باخبر ہو جائیں“
جس طرح انسان اپنے جسمانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے لئے مجبور ہے اسی طرح روحانی تقاضوں کی تکمیل بھی اس کے لئے لازمی ہے۔ روح کا تقاضا ہے کہ انسان کو اپنے خالق سے رابطہ پیدا کرنا چاہیئے اور ان خوشیوں اور سکون سے بہرہ مند ہونا چاہیئے جو کہ اس رابطے اور قربت کا لازمی نتیجہ ہے۔ سلسلہ عظیمیہ اپنے اراکین کو ترغیب دیتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو اس طرف مےوجہ کر دیا جائے کہ مادی اور روحانی وجود کا تقابلی جائزہ ان کے سامنے آجائے اور وہ اس بات کا یقیں کر لیں کہ مادی وجود عارضی ہے۔ گوشت پوست کا یہ مادی جسم ، روح کا لباس ہے جو روح نے عارضی طور پر کچھ وقفہ کے لئے اپنے اوپر پہن لیا ہے۔ اس اصل انسان یعنی روح سے اور روح کی حقیقت سے واقف ہو کر بندے کی رحانی صلاحیتیں بیدار اور متحرک ہو جاتی ہیں۔ روح چونکہ اللہ کی طرف سے ہے ، امر ربی ہے۔ اس کی معرفت حاصل کر کے بندہ اللہ کو پہچان لیتا ہے۔ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔