Topics
( بشکریہ کتاب روحانی نماز)
لوح محفوظ کا قانون ہمیں بتاتا ہے کہ ازل سے ابد تک صرف لفظ کی کارفرمائی ہے۔ حال، مستقبل اور ازل سے ابد تک کا درمیانی وقفہ لفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ تعالی ٰ کا فرمایا ہوا لفظ ہے۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کا اسم ہے۔ اسی اسم کی مختلف طرزوں سے نئی نئی تخلیقات وجود میں آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔اللہ تعالیٰ کا اسم ہی پوری کائنات کو کنٹرول کرتا ہے۔ لفظ یا اسم کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ہر قسم کے اسم الفاظ کا ایک سردار ہوتا ہے اور وہی سردار یا اسم اپنی قسم کے تمام اسماء کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ سردار اسم بھی اللہ تعالیٰ کا اسم ہوتا ہے اور اسی اسم کو اسم اعظم کہتے ہیں۔
اسماء کی حیثیت روشنیوں کے علوہ کچھ نہیں۔ ایک طرز کی جتنی بھی روشنیاں ہیں، ان کو کنٹرول کرنے والا اسم بھی ان ہی روشنیوں کا مرکب ہے اور یہ اسماء کائنات میں موجود اشیاء کی تخلیق کے اجزا ہوتے ہیں۔ مثلاً انسان کے اندر کام کرنے والے تمام تقاضے اور پورے حواس کو قائم رکھنے والا اسم ان سب اسم کا سردار ہوتا ہے اور یہی اسم اعظم کہلاتا ہے۔
جنات کی نوع کا اسم اعظم الگ ہے
نوع جنات کے لئے اسم اعطم ہے۔ نوع انسان کے اوپر الگ اسم اعظم کی حکمرانی ہے۔ نوع ِ نباتات کے لئے الگ ، نوع جمادات کے لئے الگ اور نوع ملائکہ کے لئے الگ اسم اعظم ہے ۔ کسی نوع سے تعلق اسم اعظم کو جاننے والا صاحب علم اس نوع کی کامل طرزوں، تقا ضوں اور کیفیات کا علم رکھتا ہے۔
گیارہ ہزار اسمائے الٰہیہ
انسان کے اندر پورے تقاضوں اور جذبات کے ساتھ دو حواس کام کرتے ہیں۔ ایک طرح کے حواس خواب میں اور دوسری طرح کے حواس بیداری میں کام کرتے ہیں۔ ان دونوں حواس کو اگر ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو ان کی تعداد گیارہ ہزار ہوتی ہے۔ اور ان گیارہ ہزار کیفیات یا تقاضوں کے اوپر ہمیشہ ایک اسم غالب رہتا ہے۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے جو اسماء کام کر رہے ہیں ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہے اور ان گیارہ ہزار اسماء کو جو اسم کنٹرول کرتا ہے وہ اسم اعظم ہے۔ان گیارہ ہزار اسماء میں سے ساڑھے پانچ ہزار اسماء خواب میں کام کرتے ہیں۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان کے اندر کام کرنے والا ہر اسم کسی دوسری نوع کے لئے اسم اعظم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہی وہ اسماء ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ سکھایا ہے۔
تکوین یا اللہ تعالیٰ کے ایڈمنسٹریشن (Administration) کو چلانے والے حضرات یا صاحب ِ خدمت اپنے اپنے عہدوں کے مطابق ان اسماء کا علم رکھتے ہیں۔
اسم ذات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جو کامل طرزوں کے ساتھ اپنے اندر تخلیقی قدریں رکھتا ہے۔ تخلیق میں کام کرنے والا سب کا سب قانون اللہ کا قانون ہے۔
اَللَّهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضُ ط
اور یہی اللہ کا نور لہروں کی شکل میں نباتات، جمادات، حیوانات، انسان، جنات اور فرشتوں میں زندگی کی تمام تحریکات پیدا کرتا ہے۔ پوری کائنات میں قدرت کا یہی فیضان جاری ہے کہ کائنات میں ہر فرد نور کی ان لہروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور وابستہ ہے۔
کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔ نور کی یہ لہریں ایک لمحہ میں روشنی کا روپ دھار لیتی ہیں۔ روشنی کی یہ چھوٹی بڑی لہریں ہم تک بے شمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ہم ان ہی تصویر خانوں کا نام واہمہ ، خیال، تصور اور تفکر رکھ دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
لوگو! مجھے پکارو، میں سنوں گا۔ مجھ سے مانگو، میں دوں گا۔
کسی کو پکارنے یا مانگنے کے لئے ضروری ہے کہ اس ہستی کا تعارف ہمیں حاسل ہو اور ہم یہ جانتے ہوں کہ جس کے اگے ہم اپنی احتیاج پیش کر رہے ہیں وہ ہماری احتیاج پوری کر سکتا ہے یا نہیں۔
اس بات پر یقین کرنے کے لئے ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ وہ کون سی ذات والا صفات ہے جس سے ہم روزانہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ خواہشات پوری کرنے کی تمنا کریں تو وہ پوری کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذات یکتا اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا تذکرہ اپنے ناموں سے کیا ہے۔ سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہ۔
ترجمہ اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں۔ پس ان اچھے ناموں سے اسے پکارتے رہو۔
سورہ احزاب میں ارشاد ہے۔
ترجمہ ایمان والو! اللہ کا ذکر کثرت سے کرتے رہوں ، اور صبح و شام اس کی تسبیح میں لگے رہو۔
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم ایک چھپا ہوا خزانہ ہے۔ جو لوگ ان خزانوں سے واقف ہیں جب وہ اللہ کا نام ورد زبان کرتے ہیں تو ان کے اوپر رحمتوں اور برکتوں کی بارش برستی ہے۔ عام طور پر اللہ تعالیٰ کے نناوے نام مشہور ہیں۔ اس بیش بہا خزانے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر نام کی تاثیر اور پڑھنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔
کسی اسم کی بار بار تکرار سے دماغ اس اسم کی نورانیت سے معمور ہو جاتا ہے اور جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کے اسم کے انوار دماغ میں ذخیرہ ہوتے ہیں اسی ماسبت سے بگڑے ہوئے کام بنتے چلے جاتے ہیں اور حسب دلخواہ نتائج مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن جس طرح اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی طرح گناہوں کی تاریکی ہمارے اندر روشنی کو دھندلا دیتی ہے۔ کوتاہیوں اور
خطاؤں سے آدمی کثافتوں ، اندھروں اور تعفن سے قریب ہو جاتا ہے اور اللہ کے نور سے دور ہو جاتا ہے۔
جب کوئی بندہ جانتے بوجھتے گناہوں اور خطاؤں کی زندگی کو زندگی کا مقصد قرار دے لیتا ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر بن جاتا ہے۔
” مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر
پردہ ڈال دیا ہے اور ان لوگوں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ہر صفت قانون ِ قدرت کے تحت فعال اور متحرک ہے۔ ہر صفت اپنے اندر طاقت اور زندگی رکھتی ہے۔ جب ہم کسی اسم کا ورد کرتے ہیں تو اس اسم کی طاقت اور تثیر کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ اگر مطلوبہ فوائد حاصل نہ ہوں تو ہمیں اپنی کوتاہیوں اور پر خطا طرزِ عمل کا جائزہ لینا چاہیئے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ علاج میں دوا کے ساتھ پرہیز ضروری ہے اور بدپرہیزی سے دوا غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔ کوتاہیوں اور خطاؤں کے مرض میں جو پرہیز ضروری ہے وہ یہ ہے ۔ حلال روزی کا حصول ، جھوٹ سے نفرت، سچ سے محبت، اللہ کی مخلوق سے ہمدردی، ظاہر اور باطن میں یکسانیت ، منافقت سے دل بیزاری ، فساد اور شر سے احتراز، غرور اور تکبر سے اجتناب۔ کوئی منافق ، سخت دل، اللہ کی مخلوق کو کمتر جاننے والا اور خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے والا بندہ اسمائے الٰہیہ کے خواص سے فائدہ نہیں حاصل کر سکتا۔ کسی اسم کا ورد کرنے سے پہلے مذکورہ بالا صلاحیتوں اور اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے۔ بیان کردہ علاج اور پرہیز کے ساتھ آپ کو یقیناً اسمائے الٰہیہ کے فوائد و ثمرات اسی طرح حاصل ہوں گے جس طرح ہمارے بزرگ مستفیض ہوتے رہے ہیں اور اب بھی انہیں فائدے پہنچتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔