Topics
” اللہ کی مخلوق کو دوست رکھیں“
حدیث قدسی ہے ” میں نے مخلوق کو محبت کے ساتھ پیدا کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔“
جو فرد اللہ کی مخلوق سے محبت اور دوستی کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ عمل کی پیروی کرتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب بندے کے ذہن میں یہ بات ہو کہ تمام مخلوق ایک کنبہ کی طرح ہے جس کا خالق مالک اور سربراہ اللہ تعالیٰ ہے۔ حدیث نبوی ﷺ ہے کہ ”تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اس کنبہ کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہو۔“
اللہ کی مخلوق سے دوستی کے طریقے روز مرہ زندگی میں رائج اور نافذ ہیں یعنی والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق اور اولاد کے حقوق۔ اسی طرح دوسری مخلوقات میں نباتات، جمادات، حیوانات سے محبت اور ان کا تحفظ ان سے دوستی قائم کرنا ان کے حقوق ہیں۔ اللہ کی مخلوق کو بندہ اسی وقت دوست رکھ سکتا ہے جب وہ دوستی کے قاعدے قانون اور طورطریقے جانتا ہو۔ زندگی کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ہر آدمی سکون اور تحفظ کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے اور مستقبل کے خوف اور اندیشوں سے نجات چاہتا ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک اپنا دوست نہیں بن سکتا جب تک کہ اس کے اندر سکون نہ ہو۔ سکون حاصل کرنے کے لئے بنیادی بات یہ ہے کہ آدمی کے اندر مستقبل کے اندیشے نہ ہوں یا کم سے کم ہوں۔ اس کے سامنے کوئی ایسی ذات ہو جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ یہ ذات میری محافظ ہے اور وہ ذات اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔