Topics
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں مراقبہ سے فارغ ہوئے تو آپ کو ایک اور حکم ربانی ملا ” اے کپڑوں میں لپٹنے والے ! رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات( کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو) یا اس سےنصف کسی قدر کم کردو۔ نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب صاف صاف پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری حکم ڈالنے کو ہیں“۔ (القرآن)
رات کے اوقات میں جب ظاہری حواس پرسستی طاری ہوتی ہے اور باطنی حواس بیداری کی طرف مائل ہوتے ہیں اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے تھے متواتر کھڑا رہنےسے آپ ﷺ کے پیروں میں ورم آجاتا تھا۔ ذہنی یکسوئی اور جسمانی بیداری کے ساتھ یہ قیام اس تعلق کو مضبوط تر کرتا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم غیب خداوندی سے حاصل تھا جیسے جیسے انشراح حاصل ہوتا گیا غیبی مشاہدات اور روحانی عروج بڑھتا گیا ۔انہی احکامات کے سلسلے میں ایک حکم یہ ہے۔
”سب سے قطع تعلق ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ جو مشرق اور مغرب کا رب ہے۔“ (القرآن)
روحانیت کی اصطلاح میں یہ کوشش جس میں تمام ذہنی رحجانات کو ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے، مراقبہ ذات کہلاتی ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق حاصل کرنا ہی ساری ہوں۔ ان پاکیزہ نفس لوگوں کے لئے جن کا اللہ تعالیٰ سے ذہنی رابطہ قائم ہو جاتا ہے اللہ کا فرمان ہے
”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دنیاوی زندگی کی خریدو فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کر سکتی۔“ (القرآن)
--------------------
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔