Topics
ہم عنقریب انہیں انفس و آفاق میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کروائیں گے۔ (القرآن)
-------------------
”مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔“ (الحدیث)
” لوگوں کے اندر ایسی طرزِ فکر پیدا کرنا جس کے ذریعے وہ روح اور اپنے اندر روحانی صلاحیتوں سے باخبر ہو جائیں۔“
فکر انسانی میں ایسی روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے اور غیب کا مشاہدہ ظاہر میں موجود کسی چیز کی تحلیل میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہم کسی چیز کے باطن کو دیکھ لیں تو پھر اس کے ظاہر کا پوشیدہ رہنا ممکن نہیں۔ اس طرح ظاہر کی وسعتیں انسانی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہیں اور یہ جاننے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ظاہر کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔ یہ انبیائے ربانی کا طریقہ ہے کہ وہ باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ باطن میں تفکر کرنے سے بالآخر ذہن اس روشنی سے منور ہو جاتا ہے۔ جس سے مخفی حقائق مشاہدے میں آتے ہیں۔ محمد ﷺ نے اس روشنی کو نور فراست کہا ہے۔ فکر کا ارتکاز ظاہری و باطنی دونوں علوم میں ضروری ہے۔ جب تک فکر میں ذوق و شوق ، تجسس اور گہرائی کی قوتیں پیدا نہیں ہوتیں۔ ہم کسی بھی علم کو سیکھ نہیں سکتے۔ اسی طرح روح کے علم کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی اپنی فکری صلاحیتوں کو ایک نقطہ پر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جب کوئی شخص ارادے اور عمل کی پاکیزگی کے ساتھ تفکر کرتا ہے تو نقطہ کھل جاتا ہے اور اس کی معنویت یا اس کا باطن سامنے آجاتا ہے۔
جو شاہ کئی ملک سے لیتے تھے خراج
معلوم نہیں کہاں ہیں ان کے سرد و تاج
البتہ یہ افواہ ہے عالم میں عظیم
اب تک ہیں غبار زرد ان کی افواج
حضور قلندر بابا اولیاؒ
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔