Topics
”اور صابر کو بشارت دے دو کہ جب انہیں مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں اس کی طرف لوٹ جانا ہے۔“ ( القرآن)
------------
”اللہ تعالی اپنے بندوں سے فرمائے گا اگر پہلی مصیبت پر صبر کر کے اللہ سے اجر چاہے تو میں تجھے جنت عطا کر دوں گا۔“( الحدیث)
مومن مصائب و آلام کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور بُرے سے بُرے حادثے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ،صبر و استقامت کا پیکر بن کر چٹان کی طرح اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور جو کچھ پیش آرہا ہے اس کو اللہ کی مشیت سمجھ کر اسی میں خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔ جو لوگ صابر و شاکر مستغنی نہیں ہیں اللہ سے دور ہو جاتے ہیں اور اللہ کے دوری سکون و عافیت اور اطمینان قلب سے محرومی ہے۔ صبر و اسغناء جب کسی قوم کے مزاج میں رچ بس جاتا ہے تو معاشرہ سدھر جاتا ہے اور ایسی قوم حقیقی فلاح و بہبود کے راستوں پر گامزن ہو جاتی ہیں۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ بندہ راضی بہ رضا رہے۔ صبر و اسغناء حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان کی سوچ اور انسان کی طرز فکر اس طرز فکر سے ہم رشتہ ہو جو اللہ کی طرز فکر ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔