Topics
جب کوئی بندہ یا بندی اپنے مقصد سے آشنا ہو جاتا ہے۔ تو اس کی زندگی کی نہج بدل جاتی ہے، اس کی طرزِ فکر انبیاء کرام کی طرزِ فکر کے مطابق ہو جاتی ہے۔ زندگی کے مقصد سے اگاہی عطا کر دینا کوئی معمولی اور غیر اہم بات نہیں۔ یہ انتہائی بنیادی اور اس قدر اہم نکتہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنی زندگی کے مقصد سے واقف نہ ہو تو وہ ساری زندگی بھٹکتا رہتا ہے۔ کبھی وہ دنیا کے ارام و آسائش کو ، کبھی اولاد کو، کبھی عزت و شہرت کو، اور کبھی اقتدار کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے۔ چونکہ یہ سب کچھ عارضی، فکشن اور غیر اختیاری ہے چناچہ جب یہ عارضی ، فکشن اور غیر اختیاری چیزیں اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں۔ تو وہ خود کو رسوا مفلوک الحال، سائل اور بے نوا محسوس کرتا ہے۔ اگر کسی بندے کو اپنی زندگی کے اصل مقصد کا علم ہو جائے اور وہ اس کے حصول کی جدوجہد شروع کر دے۔ تو اس کے اندر اطمینان قلب پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسا بندہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور و فکر کرتا ہے۔ یوں اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے علم میں یہ بات آجاتی ہے کہ آسمان اور زمین کیا ہیں اور آسمانوں اور زمین میں زندگی کن فارمولو پر متحرک ہے۔ ایسا بندہ یہ بھی جان لیتا ہے ۔ کہ فرشتے اور جنات کی نوع میں زندگی اور اس کے تقاضے کیا ہیں اور فرشتوں اور جنات کو پیدا کرنے میں اللہ کا منشا کیا ہے۔ دنیا کی عارضی اور فکشن خواہشات کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے والوں کی زندگیاں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ آپ مطالعہ پڑھ لیجیئے! ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا شہنشاہ ایران کی مثال تو سامنے کی ہے۔ وہ اپنے ساتھ کیا کچھ لے گیا؟ ذلت و رسوائی کی موت مر گیا! ساتھ تو کچھ بھی نہیں لے کر گیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
فرماتے ہیں کہ کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم جب تک فکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر زندگی کو صحیح طرح نہیں
گزارا جاسکتا ہر مسلمان صحیح خطوط پر پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے سکتا
ہے ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ حقائق کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ ، اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اپنی عملی زندگی بنا لیں۔