Topics
دربار تاج
الاولیاء کے حاضر باش لوگوں ، عقیدت مندوں اور زائرین کو معمول تھا کہ وہ مختلف قسم
کے کھانے پکا کر باباصاحبؒ کو پیش کرتے ۔ باباصاحبؒ کسی میں سے کچھ لیتے۔ باقی کھانا وہاں موجود لوگ کھاتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کئی کئی دن گزرجاتے لیکن ایک لقمہ بھی
باباصاحبؒ کے حلق سے نہ اترتا۔ کھانا پکا کر پیش کرنے والوں میں بڑے بڑے صاحبِ حیثیت
لوگ، عالم رؤ سا اورنواب تک شامل تھے۔
ایک مہترانی (ہندوخاک ردب عورت )کی دلی تمنا
تھی کہ وہ بھی کچھ پکا کر باباصاحبؒ کی خدمت میں پیش کرے۔ ایک عرصہ سے یہ خواہش اس
کے دل میں مچل رہی تھی۔ لیکن یہ سوچ کر اس کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ باباصاحبؒ کے حضور
کھانا پیش کرنے والوں میں بڑے بڑے امراء اور اونچی ذات کو لوگ ہوتے ہیں۔ مجھ نیچ ذات
کو کون پوچھے گا۔پتہ نہیں لو گ یہ کھانا پیش کرنے کی اجازت دیں گے بھی یا نہیں۔ خلوص
کے ہاتھوں مجبورہوکر ایک دن وہ اپنی بساط کے مطابق کھاناپکا کر شکردرہ لائی لیکن نیچ
ذات ہونے کے خیال نے اس کے بڑھتے ہوئے قدم پھر روک دیئے۔ خوف کے مارے اس نے اپنا کھانا
ایک امرود کے درخت سے باندھ دیا۔
بابا تاج الدین ؒ راجہ رگھوجی کے محل میں موجود
تھے۔ کھانے کے وقت انہوں نے کھانا طلب کیا۔ حاضرین نے اپنے توشے دان کھول کر پیش کئے۔
بابا صاحبؒ نے کسی کی طرف توجہ نہیں دی۔فرمایا۔"یہ نہیں کھاتے۔ وہ کھانا لاؤ جو
درخت سے بندھاہے۔"
کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ کون سا
کھانا ہے جو درخت سے بندھا ہے۔ حاضرین اِدھر اُدھر دیکھ کر خاموش ہو رہے۔ یہ صورتِ
حال دیکھ مہترانی دور جاکر ایک جگہ بیٹھ گئی اور وہاں سے یہ منظر دیکھنے لگی۔ لوگوں
نے بارہا کوشش کی کہ باباصاحبؒ کسی توشہ دان سے کھانا کھالیں لیکن باباصاحبؒ نے کسی
کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ آپ برابر یہی کہہ رہے تھے کہ وہ کھا نا لاؤ جو درخت سے بندھا
ہے۔ کچھ دیر بعد باباصاحبؒ خود اٹھے اورمحل سے باہر اسی امرود کے درخت کے پاس پہنچے
جس سے مہترانی کاکھانابندھا ہواتھا۔ انہوں نے توشہ دان اتارکر کھولا اور وہیں بیٹھ
کر کھایا۔
لوگ یہ معلوم کرنے میں لگ گئے کہ توشے دان
کا مالک کون ہے۔ آخر مہترانی نے جاکر سارا معاملہ بتایا۔ اورخود فرطِ خوشی سے جھومنے
لگی۔ اس کی دلی مراد پوری ہوگئی تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"