Topics
اسی اثنا
میں بابا تانگے پرسوار آتے نظر آئے۔ عثمان کے قدم رک گئے۔ بابا جیؒ نے اسے اپنے ساتھ
لیا۔ اور سیدھے شکردرا روانہ ہوگئے۔
محل کے احاطے میں پہنچ کرعثمان کاہاتھ پکڑے
وہ پھر مندر کی طرف گئے۔ وہاں سناٹا تھا۔ باباجیؒ کی آواز ابھری۔ "بڑا دیو گنداہے
رے۔ مکھیاں بھنکتیں، اس کو نہلائے گا، ہے نا!"
"نہیں بابا!"عثمان کی زبان سے یوں
ہی نکلا گیا۔ باباؒ نے اسے بہت غور دے دیکھا۔
"کائے کو ڈرتارے۔ چل میرے ساتھ ۔ ٹوٹے
دھاگے بھی جڑ جاتے ۔"
مندرکے قریب پہنچے ہی تھے کہ کٹہرے کی اوٹ
سے رگھو جی اور شہر کا کوتوال جبّار خاں نمودار ہوئے۔ بابا جیؒ کودیکھتے ہی رگھو جی
ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا۔ مندر کے دوتین پجاری بھی نکل آئے اور ہاتھ جوڑ کر بابا کو
روکنے لگے۔ باباؒ ہنس دیے اور جبارخاں سے مخاطب ہوئے۔"ارے بڑے کتے تو کائے کو
آیا رے، شیر بنے گا، پنجرے میں بند ہوگا، کیا کھائے گا رے؟"
"باباولی بنادو!"کوتوال کی زبان
سے بے اختیار نکلا۔
وہ چونک کر بولے۔"بہت بھوکا ہے رے مگر
ولی تو یہ پتھرہے۔" انہوں نے ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر گردن کو ہلکی سی جنبش دی۔ جبارخاں تڑپ کر زمین پر گرپڑا۔ زبان سے اﷲہوکے
نعرے بلند ہونے لگے۔ اور مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگا۔ باباؒ سکتے کے سے عالم میں اسے
دیکھ رہے تھے۔ دس منٹ اسی عالم میں گزرگئے تو رگھوجی راؤ گھبرا اٹھا۔ باباؒ نے سرکو
دو بارہ جنبش دی۔ کوتوال ہوش میں آگیا ۔ لیکن آنکھیں اب بھی انگارے کی طرح سرخ تھیں
اور قدم لڑکھڑارہے تھے۔
"اب اس کا پیٹ بھرا۔ کئی دن کا بھوکا
تھاجی۔ بہت بھوکا ہے۔" پھر وہ جھرے کی طرف چل دیے۔ راجہ نے رکتے رکتے کہا۔"
کوتوال صاحب کے ساتھ چیف کمشنر سربنجمن رابرٹس آئے ہیں۔ میرے محل میں آپ کا انتظار
کر رہے ہیں۔ اجازت ہوتو بلالاؤں۔"
عثمان بنکٹ راؤ کے قریب بیٹھا تھا۔ پہلوان
باباکی مٹھیاں بھر رہا تھا۔ راجہ کے ہمراہ بنجمن ننگے پاؤں حجرے میں داخل ہوا۔ باباجی
نے بڑے اطمینان سے کہا۔ "ارے بندر، تو کائے کو اتنا خرچہ کیا؟ بچی کو ناحق تکلیف
دیا۔ بیٹا کو مٹی سونگھا دیتے رے، اچھے ہو جاتے ۔"
کوئی نہ سمجھ سکا کہ باباکیا کہہ رہے ہیں
۔ عثمان کی نگاہ دروازے کی جانب اٹھی۔ جوتوں کے قریب کوتوال بیٹھا نظرآیا۔ اس پر ابھی
تک لرزہ طاری تھی۔ اورآنکھوں سے اشک رواں تھا۔ وہیں رانی، سربنجمن کی میم اورجواں سال
بھتیجی کھڑی تھیں۔ بابا نے ان کو دیکھا توفوراً اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ خواتین کا بڑا احترام
کرتے تھے۔ رانی کو بیٹی بنا رکھی تھا اور اسے بہت عزیز رکھتے تھے۔
ٍ "آجاؤ رے اندر آجاؤ۔ باہر کائے کو کھڑے
ہو!" وہ ان سے مخاطب ہوئے۔ رانی نے ہاتھ جوڑ کر نمستے کیا۔ ان دونوں نے بھی اس
کی تقلید کی۔ پھر رانی لڑکی کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھی۔ لڑکی کے سر پرپٹی بندھی تھی۔
ٍ "بابا! اس کے سر میں درد رہتاہے۔ لندن
میں کسی علاج سے فائدہ نہ ہوا۔ سربنجمن نے اسے آپ سے دم کرانے کے لئے وہاں سے بلوایا
ہے۔" وہ ایک ہی سانس میں پورے بات کہہ گئی۔
"یہ بندر توپگلا ہے جی۔ بچی کو تکلیف
دیا۔تا ج الدین کو بولنا تھا۔ " پھر بڑے پیار سے اسے اپنے قریب بٹھایا۔"
پریشان نکو ہوتے بیٹی، مٹی سونگھ لیتے ، اچھے ہوجاتے، پٹی کھول دیتے۔ " شفقت اورمٹھاس
ان کے لہجے سے پھوٹی پڑتی تھی۔
لڑکی نے کچھ بھی نہ سمجھا۔ وہ اردو سے ناآشنا
تھی۔ حیرت بھری نگاہوں سے بابا کو دیکھ رہی تھی۔
"کون سی مٹی؟" رگھو جی نے پوچھا۔
" یہ بندر لائے گا جی۔ سڑک کی مٹی لائے
گا۔ بچی کو سونگھا دیتے جی۔ اچھے ہوجاتے ۔ "
سربنجمن رابرٹس باباکی خدمت میں پہلے بھی حاضری
دے چکے تھے۔ بات سمجھ گئے۔ فوراً سڑک سے تھوڑی سی مٹی لے آئے اوربچی کو اسے سونگھ لینے
کی ہدایت کی۔
ٍ مٹی سونگھتے ہی لڑکی کوتین چار چھینکیں آئیں
اور ہر چھینک کے ساتھ اس کی ناک سے ایک کیڑا گرا۔
"بس بیٹی بس۔ اب اچھے ہوگئے۔" بابانے
پورے اعتماد سے کہا۔
رانی نے اس کے سر کی پٹی کھول دی۔ سر کا درد
بالکل غائب ہوگیا۔ فرطِ مسرت سے لڑکی کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ وہ سب کے سب سراپا
شکر وشپاس بنے ہوئے تھے۔ لڑکی کے اشارے پر سربنجمن نے احساسِ تشکر کے ساتھ بابا جی
کی خدمت میں کثیر رقم پیش کی۔ تو ان کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ مگر ان کے الفاظ میں بڑی
نرمی تھی۔ "تو میری بیٹی ہے۔ بیٹی باپ کو نذرانہ نہیں دیتی۔ باپ بیٹی کو دیتاہے۔"
یہ کہا اورگاؤتکئے کے نیچے ہاتھ ڈالا۔چند سکّے لڑکی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ ا س نے خوشی
خوشی تحفہ قبول کر لیا اور پھر وہ شاداں وفرحان رخصت ہوگئے۔
ادھر کوتوال جبارخاں کی زندگی میں ایک عظیم
انقلاب آگیا۔ وہ ساری رات اﷲاﷲکی ضرب لگاتارہا۔ دوسرے دن گھر کا ساراسامان لٹادیا اور
درویشی اختیار کرلی۔ سربنجمن نے کچھ عرصے اسے تحفظ دیا مگر پھر کوشش کرکے وقت سے پہلے
ہی پنشن دلوادی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"