Topics
حضرت محمد عبدالعزیز مدراسی تھے اور آپ کے
والد کا تعلق فوج سے تھا۔ ان کی سرگزشت جو خود انہوں نے بیان کی ، یوں ہے:
میں رائے پور میں سکونت پذیر تھا۔ یہاں اکثر
مشائخ آتے اور کوشش کرتے کہ میں ان کا مرید ہوجاؤں لیکن میں انکار کر دیتا۔ ایک رات
خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ جلوہ افروز ہیں۔ ان کے ایک طرف پانی بہ رہا ہے اور دوسری
طرف روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک آدمی کہیں سے نمودار ہوااور بزرگ کی طرف اشارہ کرکے مجھ
سے کہا۔" یہ ہے تمہارا راستہ!"
میں بیدار ہواتو دل سکون واطمینان سے سرشار
تھا۔ اس دن کے بعدمیں اکثر اس خیال میں رہتاکہ جن صاحب کی میں نے خواب میں زیارت کی
ہے، ان سے نہ جانے کب ملاقات ہو۔ اس زمانے میں میرے چند دوست ناگپور کے پاگل خانے میں
بابا تاج الدینؒ کے پاس گئے اور ان کے اندر ہونے والی تبدیلی کو میں نے بخوبی محسوس
کیا۔ نیز اور بہت سے لوگوں سے باباصاحب کی شخصیت اورکرامات کا تذکرہ سن کر میرے دل
میں بھی زیارت کااشتیاق ہوا۔
واکی میں باباصاحبؒ کے پاس حاضر ہوا تو دیکھا
کہ باباصاحبؒ نے ایک تنکا اٹھایا۔ اور اپنی ران پرآہستہ آہستہ لکھنا شروع کیا۔ میں
آپ کے ہاتھ کی حرکات کو بغور دیکھ رہا تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ باباصاحبؒ
نے اپنی ران پر میرا پورا نام مع ولدیت کے لکھ دیا۔ جب کہ میں پہلی دفعہ ان کی خدمت
میں حاضر ہواتھا اور آپ سے بات تک نہیں کی تھی۔ اسی وقت مجھے اپنا خواب یاد آگیا اور
میں نے پہنچان لیا کہ میں نے خواب میں جن بزرگ کی زیارت کی تھی وہ باباتاج الدینؒ ہی
تھے۔
میں اکثر باباتاج الدینؒ کی خدمت میں میلاد
شریف پڑھتا تھا۔ ایک دن باباصاحبؒ نے کہا۔"کتاب لا" میں کتاب لے کر بابا
صاحبؒ کے پاس پہنچا تو انہوں نے ایک صفحہ کھول کر بطور نشانی لکڑی کی سیک اس پر رکھ
دی اور فرمایا۔" یہ تمہارا ترک ہے۔" یہ الفاظ سنتے ہی میرے دل کی دنیا زیروزبرہوگئی۔مجھے
دنیا اور دنیا کے معاملات ہیچ دکھائی دینے لگے۔ میرے ذہن میں ترکِ دنیا کا خیال آیا
اور میں نے ارادہ کرلیا کہ سب کچھ چھوڑ کر گوشہ نشین ہوجاؤں گا۔ یہ خیالات ہر وقت میرے
ذہن میں گشت کرنے لگے۔ چند دن بعد بابا تاج الدینؒ نے دوبارہ کتاب طلب کی اور اس پر
تحریر فرمایا۔" چالیس،پچاس، ساٹھ، ستر۔" اورکتاب مجھے دیتے ہوئے فرمایا۔"
ترک کو سمجھو۔"
اگلے روزبابا صاحبؒ نے اپنے روحانی تصرف سے
مجھے سمجھایا کہ ترک کیا ہےاور میں سمجھ گیا کہ ترک ، دنیا کو چھوڑ دینے کا نام نہیں
بلکہ ان خیالات سے نجات حاصل کر نے کا نام ہے جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
فوراً ہی میرے دل سے دنیا چھوڑنے کا خیال ختم ہوگیا اور میں باباصاحب کی اجازت سے اپنے
وطن رائے پور چلا گیا۔
رائے پور میں میری تنخواہ میں بتدریج اضافہ
ہونا شروع ہوااور یہ اضافہ اسی شرح سے ہوا جو بابا صاحبؒ نے میری کتاب پر تحریر کیا
تھا۔ ۲۵؍روپئے سے بڑھ کر میری تنخواہ چالیس روپئے ہوئی۔
پھر پچاس، پھر ساٹھ، پھر ستر روپئے ہوگئی۔ رائے پور میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد میں اپنی
اہلیہ کے ساتھ واکی گیا۔ وہاں دستور تھا کہ ہر شخص کھانا پکاکر باباصاحبؒ کی خدمت میں پیش کرتا۔ایک دن میں نے بھی کھانا تیار کروایااور باباصاحبؒ کی رہائش
گاہ کی جانب گیا۔ پتہ چلا کہ باباصاحبؒ ندی کی طرف گئے ہیں۔ میں ندی کے پاس پہنچا تو
دیکھا کہ باباصاحبؒ چاروں طرف پردہ تان کر اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اورہرشخص کالایا ہوا
کھاناپیش کیا جار ہاہے۔ میرا توشہ دان بھی پیش کیاگیا۔ لیکن باباصاحبؒ نے کسی بھی توشہ
دان کی طرف ہاتھ نہیں پڑھایا۔ قریب ہی ایک ہندوکسان کھانا پکارہاتھا۔ اس نے ایک تھالی
میں زرد رنگ کی نہ جانے کوئی چیز نکالی اورساتھ میں گوار کی پھلیاں نکال کر باباصاحبؒ
کی خدمت میں پیش کیں باباصاحبؒ نے تھالی لے کر یہ کھانا نہایت خوشی اور رغبت سے کھانا
شروع کیا۔ پھر پردے کو سرکار کر میری طرف دیکھا اور کہا۔ " آؤ کہ کھانا کھالو۔
تمہارے کام کی چیز ہے۔" میں نے دوڑکر تھالی ہاتھ میں لے لی۔ دیکھا کہ کھانے کے
ساتھ بہت سی چیزیں شامل ہیں؟ موز کے چھلکے، بیڑی کے ٹکڑے اور کچھ کنکر، پتھر۔ میں یہ
کھانا بہت شوق سے کھانے لگا۔ تبرکاًبہت سے لوگ میرے ساتھ شریک ہوگئے۔ حیرت انگیز بات
یہ تھی کہ دیکھنے میں وہ بیڑی کے ٹکڑے اورکنکر پتھر دکھائی دیتے تھے لیکن منہ میں جانے
کے بعد وہ کوئی اور چیز ثابت ہوتے تھے۔ جن کا ذائقہ ناقابلِ بیان ہے۔
ایک دفعہ مئی کے سخت گرم مہینے میں باباتاج
الدینؒ جنگل میں بہت دور تک چلے گئے۔ ساتھ جانے والے ایک صاحب چھتری باباصاحب کے سر
پر پھیلائے چل رہے تھے تاکہ آپ کودھوپ کی تکلیف نہ ہو۔ مجھ سے یعقوب نامی خادم نے کہا۔"آپ
بھی چھتری پکڑ کر خدمت میں شریک ہوجائیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے چھتری ہاتھ میں لے لی۔ اورساتھ
ساتھ چلنے لگا۔ میں نے باباصاحب کو دیکھا تو آپ پر استغراق کی کیفیت طاری تھی اور اس
درجہ خود فراموشی کے باوجود آپ اس طرح تیز تیز چلے جار ہے تھے جیسے پوری طرح باہوش
ہوں۔ آپ کانٹوں، پتھروں سے بے پروایوں چل رہے تھے جیسے وہ آپ کے راستے میں نہ ہوں۔
میں قدموں پر نگاہ کی تو ایسا لگا جیسے باباصاحب زمین سے کچھ اوپر فضا میں معلق چلے
جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے راستے میں ایک پتھر آیا جو زمین میں گڑا ہواتھا۔ وہاں باباصاحب
رک گئے۔ اورمجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا۔" ایسے رہتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔"
ایک دفعہ میں کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا
تھا۔ ان دنوں میں دنیاوی مسائل کا شکار تھااور میراذہن ہر وقت ان ہی مسائل میں الجھا
رہتاتھا۔ یکایک باباصاحب نمودار ہوئے اورمیرے پاس آکر کہا۔" حضرت ! پنجرے سے کبوتروں
کواڑادو۔" یہ کہہ کر آپ چلے گئے۔ جیسے ہی آپ واپس ہوئے میرے ذہن میں ایک کوندے
کی طرح ان الفاظ کے معانی آگئے۔ باباصاحب نے میرے دل کو پنجرہ کہا تھا اور خیالات کو
کبوتروں کے ہم معنی قرار دیا تھا۔ جو ہر وقت میرے دل میں گشت کرتے رہتے تھے۔ پنجرے
سے کبوتراڑا دینے کا مطلب یہ تھا کہ میں ان سے ذہن ہٹاکر یکسو ہوجاؤں کیوں کہ یکسوئی
ہر معاملے میں کامیابی کی کلید ہے۔
اب میں باباصاحب کے اشارے کے مطابق ستر روپئے
ماہوار پرملازم ہوچکاتھا۔ میرے رشتے داروں نے مجبور کیا کہ تم اگلا امتحان پا س کر
لو تو تمہاری تنخواہ چارسو روپئے کے قریب ہوجائے گی۔ میں ۱۹۲۲ ء میں ناگپور آیا تاکہ امتحان دے سکوں۔ شکردرہ
میں حضور باباصاحب کے پاس حاضر ہوا تو بابانے فرمایا۔" صوبے دار کی لال کتاب پڑھتے
ہیں، گھر جاتے ہیں۔" میں بہت خوش ہوا کہ باباصاحب نے امتحان میں کامیابی کی خوش
خبری دے دی ہے۔ اگلے ہی روز میں پیچش میں مبتلا ہوگیااور اس شدت کی تکلیف ہوئی کہ میں
امتحان میں شریک نہ ہوسکا۔ میں ناگپور سے جوں ہی رائے پور واپس پہنچا، میری تکلیف فوراً
ختم ہوگئی۔ ابھی ایک ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں کے ایک بزرگ حضرت عبدالطیف نے مجھے سے کہا۔"
عبدالعزیز! تم نے قرآن شریف نہیں پڑھا ہے، پڑھ لو اورنماز پڑھا کرو۔ " میں اب
تک ایک لاپرواہ قسم کاشخص تھا اور مجھے نماز تک نہیں آتی تھی۔ عبدالطیف صاحب کے ساتھ
مسجد گیا اور لوگوں کی نقل کرتے ہوئے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد عبدالطیف صاحب مجھے اپنے
گھر لے گئے۔ اور قرآنِ پاک کھول کر میرے سامنے رکھا اور حکم دیا۔" مجھے خود حیرت
ہوئی کہ میں جس لفظ پرنظر ڈالتا وہ ازخود میرے ذہن میں آجاتااورمیں پڑھ دیتا۔ "پڑھو۔"مجھے
خود حیرت ہوئی کہ میں جس لفظ پر نظر ڈالتاوہ از خودمیرے ذہن میں آجاتا اور میں پڑھ
دیتا۔ یہاں تک کہ میں بارہ صفحے تک تلاوت کر گیا۔ عبدالطیف صاحب نے مجھ سے کہاکہ عبدالعزیز،
تم نے مجھ سے غلط بیانی کیوں کی ، تمہیں توقرآنِ مجید کی تلاوت بحسن وخوبی آتی ہے۔
تب میں نے عبدالطیف صاحب کو وہ پورا واقعہ سنایا کہ کس طرح باباتاج الدینؒ نے مجھ سے
کہا تھا کہ صوبے دار کی لال کتاب پڑھا کرو۔ یہ سن کر عبدالطیف صاحب پر ایک خاص کیفیت
طاری ہوگئی اور فرمایا کہ یہ حضور باباصاحبؒ کا تصرف ہے کہ تم لمحہ بھرمیں قرآن پاک
پڑھنے پر قادر ہوگئے ہو حالانکہ تم نے آج سے پہلے کبھی قرآن پاک کھول کر بھی نہیں دیکھا
ہے۔
باباتاج الدینؒ کا حضرت عبدالعزیز صاحب پرقادر
ہوگئے ہوحالانکہ تم نے آج سے پہلے کبھی قرآن پاک کھول کر بھی نہیں دیکھا ہے۔
باباتا ج الدینؒ کا حضرت عبدالعزیز صاحب پر
یہ تصرف مستقبل میں بھی جاری رہا اس طرح کہ آپ کند ذہن لوگوں کو بھی پندرہ دن کے اندر
قرآن ختم کرادیتے تھے۔ لوگ دوردور سے ان کے پاس آتے اوردس پندرہ دن میں قرآنِ پاک ختم
کرکے چلے جاتے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"