Topics
باباصاحبؒ نے انہیں
اطمینان دلایا۔ دن گزرتے گئے۔ یہاں تک کہ حج پر جانے کا وقت قریب آگیا۔ ان صاحب نے
دوبارہ عرض کیا۔ یہ صاحب نہایت مضطرب اوربے چین حج سے ایک روز پہلے باباصاحبؒ کی خدمت
میں آئے اورعرض کیا۔باباصاحبؒ خاموش رہے۔اسی خاموشی میں حج پر جانے کا وقت بھی گزر گیا۔"حضور کل سے حج شروع ہوجائے گا لیکن آپ نے حج پر جانے میں
میری کوئی مدد نہیں کی۔"
اگلے دن باباصاحبؒ حسبِ
معمول باہر نکلے تو ان صاحب نے دوبارہ اپنی بے چینی اورمحرومی کا ذکر کیا۔ باباصاحبؒ
نے ان کا ہاتھ پکڑا اورکچھ دورلے جاکر ایک جگہ پر بیٹھا دیا۔ بیٹھے بیٹھے ان صاحب کی
پلکیں بوجھل ہوگئیں اور وہ وہیں لیٹ گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ مکہ میں موجود ہیں اور
حاجیوں کے ساتھ مناسکِ حج ادا کر رہے ہیں۔ وہیں پڑے پڑے انہوں نے تمام مناسکِ حج اداکرتے
خود کو دیکھا۔ حج کا وقت ختم ہوا توبابا صاحبؒ وہاں پہنچے اور ان سے کہا۔"کیا
یہیں پڑارہے گا؟"
ضعیف العمر صاحب کے
پپوٹوں میں حرکت ہوئی اور وہ اٹھ کر مستانہ وار باباصاحبؒ کے ساتھ ہولئے۔ یہ ضعیف العمر
مدراسی صاحب بعدمیں نانا کے نام سے مشہور ہوئے اور آخر وقت تک تاج آباد میں رہے۔
اس کرامت کے اصول کو
سمجھنے کے لئے ہمیں خواب اور بیداری کا مختصر جائزہ لینا ہوگا۔ ہم اپنی پوری زندگی
دوحواس میں گزارتے ہیں۔ ایک خواب اور دوسرے بیداری۔ خواب اور بیداری ، ہماری زندگی
دوحالتوں میں سفر کرتی رہتی ہے۔ فرق صرف حواس اس کی نوعیت میں ہوتاہے۔ اﷲتعالیٰ کا
ارشاد ہے۔
"اﷲرات(خواب) کو
داخل کرتاہے دن (بیداری )میں اور دن کو داخل کرتاہے رات میں ۔ زندگی کو موت سے نکالتاہے
اور موت کو زندگی سے نکالتاہے۔"
رات کے حواس میں مکانی
اورزمانی فاصلے مردہ ہوجاتے ہیں لیکن دن کے حواس میں یہی فاصلے زندہ ہوجاتے ہیں۔
زید خواب دیکھتا ہے
کہ وہ اپنے ایک دوست سے باتیں کر رہاہے حالانکہ اس کا دوست دور دراز فاصلے پر رہتاہے
۔ خواب میں زید کو یہ احساس بالکل نہیں ہوتا کہ اس کے اوردوست کے درمیان کوئی فصل ہے۔
ایسے خواب میں مکانی فاصلے صفر ہوتے ہیں۔ اس ہی طرح زید گھڑی دیکھ کر رات کے ایک بجے
سوتا ہے ۔ خواب میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہفتوں اورمہینوں کے فاصلہ کا سفر کرتا
ہے۔ راستے میں اور منزل پر قیام بھی کرتاہے۔ ایک طویل مدّت گزارنے کے بعد گھرو اپس
آتاہے۔ آنکھ کھلتے ہی گھڑی دیکھتاہے۔ اب بھی ایک ہی بجا ہے۔ اس قسم کے خواب میں زمانی
فاصلہ صفر ہوتاہے۔ رات کے حواس میں جو فاصلے مردہ ہوجاتے ہیں۔ وہی فاصلے دن کے حواس
میں زندہ ہوجاتے ہیں۔
بیداری ہویا خواب دونوں
حالتوں میں ہمارے اعمال مشترک ہوتے ہیں۔ کوئی ایسا کام ہے جو ہم بیداری میں کرتے ہوں
اور خواب میں نہ کرتے ہوں ۔ فرق صرف حواس کی نوعیت کا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے
کہ ہم خواب کی حالت میں بے اختیار ہوجاتے ہیں اگر کسی طرح ہم خواب کے حواس کو استعمال
کرنا سیکھ جائیں جیسا کہ ہم بیداری کے حواس کو استعمال کرنا جانتے ہیں تو ہم زمان ومکان
سے آزاد ہوکر حسبِ منشاء کا م انجام دے سکتے ہیں۔ انبیائے کرام کے اندر یہ صلاحیت بدرجۂ
کمال موجود ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خواب اوربیداری میں فرق نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ
حدیث شریف میں آتاہے کہ انبیاء سوتے ہیں لیکن ان کا قلب جاگتا رہتاہے۔
جب حج کے متمنی شخص
نے ضد کی تو باباصاحبؒ نے تصرف کے ذریعے اس کی بیداری کی حالت کو خواب میں منتقل کر
دیا اور جسمِ خاکی کے ساتھ وہاں موجود نہ ہونے کے باوجود زمان ومکان سے آزاد ہوکر مناسکِ
حج پورے کئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"