Topics
آپ کی عرفیت بمبئی والے بابا تھی اور باباتاج
الدینؒ آپ کومستان باباکہتے تھے۔ بمبئی والے باباشکردرہ باباتاج الدینؒ کی خدمت میں
حاضر ہوئے ۔ آپ خواجہ علی امیرالدین کے ہم صفت تھے اور توتلی زبان میں بات کرتے تھے۔
عالمِ جذب میں اپنے کپڑے پھاڑکر پھینک دیتے تھے۔ باباتاج الدینؒ نے کئی بار اپنا کرتا
اتارکر عطا کیا۔ آپ اس کو پہن لیتے لیکن یکایک جوش میں آکر پھاڑدیتے۔ مستان بابا، باباصاحبؒ
سے دوردور رہتے تھے۔ لیکن ان کی مجذوبانہ حالت دیکھ کر باباتاج الدینؒ کے حضور ان کو
لے جایا گیا۔ باباصاحبؒ آرام فرمارہے تھے۔ اٹھ بیٹھے اور کہا۔
"حضرت دھوپ میں نہیں رہتے ، ہم بھی چھاؤں
میں رہتے ہیں ، تم بھی چھاؤں میں رہاکرو۔" یہ کہہ کر باباصاحب نے اپنا جبہ ان
کو عطاکرتے ہوئے کہا۔"جبہ پہناکرو۔" اس دن سے آپ نے جبہ پھاڑا نہیں۔
ایک دفعہ حضرت قادر محی الدین باباصاحبؒ کی
خدمت میں حاضرہوئے۔ باباصاحبؒ نے انہیں آتے دیکھا تو حاضرین سے مخاطب ہوئے۔
"دیکھو حضرت! یہ مست آرہے ہیں۔ تم لوگوں
نے سر مست کانام سنا ہے نا۔ ان کا نام قادرمحی الدین ہے۔ یہ مست ہیں۔ ان سے ڈراکرو
کہ ہم ڈرتے ہیں۔ یہ کالے ناگ ہیں۔دیکھو ان کے سرکو۔"
لوگوں نے دیکھا کہ جب ان کے سر کے بال صاف کئے
جاتے تو ایک سانپ جیسا نشان نظر آتا جس میں سانپ کا پھن پیشانی کی طرف ہوتا۔ آپ کی
پیشانی پر چاند کا نشان تھا جس میں سانپ کا پھن رکھا ہوادکھائی دیتاتھا۔ آپ اس قدر
پرکشش اور وجیہ تھے کہ لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔
آخری زمانے میں مستان باباصاحب پر ہمہ وقت
استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ جب کبھی ہوش میں آتے تو اشاروں سے اس بات کوظاہر کرتے
کہ ان کا آخری وقت قریب ہے۔ وصال سے چھ ماہ پہلے سے جوقوال آپ کے پاس آتا، آپ اس سے
کہتے۔"گاؤ، سیاں گیوبڑی لمبی سفر۔" کبھی خوش ہوکر آپ بھی گانے لگتے ۔ وصال
سے چند دن پہلے جسم پرکپکپاہٹ سی طاری ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر معائنہ کرتا لیکن کوئی مرض
سمجھ میں نہیں آتاتھا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد آنکھیں کھول کر کہتے۔"لاؤ میری دوا۔"
وصال سے ایک روز پہلے کہا۔" ہم کو نہلاؤ، اور دولہا بناؤ۔"چنانچہ آپ کو غسل
دے کر نئے کپڑے پہنادیئے گئے۔ پھر آپ نے رسی طلب کی اور ایک سرا حضرت فریدالدین کو
دیتے ہوئے کہا۔"دور جا۔" جہاں تک رسی جا سکتی تھی لے جائی گئی۔ مستان بابا
نے کہا۔"ڈیٹھ(دیکھ) ! یہ میری درگاہ ہے۔ "وصال کے دن باربار کہتے۔"چار
بج گیا، ہماری دوالاؤ۔"
آپ کی یہ حالت دیکھ کر لوگ ملاقات اور سلا
م کے لئے حاضر ہونے لگے۔ آپ ہرایک کودعا دیتے اور کہتے۔"چاربجے آؤ۔" جمعے
کا دن تھا ۔ جیسے جیسے چار بجے کا وقت قریب آرہاتھا۔ آپ کی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی۔
بار بار کہتے "ہماری دوالاؤ،ہماری دوا لاؤ۔" بے تابی دیکھ کر شربت بناکر
پیش کیا گیا۔ آپ اﷲاکبر کہہ کر اٹھ بیٹھے اور کپڑے بدل کر صرف ایک کمبل آدھے جسم پر
لپیٹ لیا۔ شربت کاگلاس لے کر اﷲاکبر کہااور پی لیا۔ پھر اﷲاکبر کہہ کر لیٹ گئے اور
اﷲاکبر کے ساتھ ہی روح نے جسم کو چھوڑ دیا۔ تاریخِ وصال ۴؍صفر المظفر۱۳۰۰ ھ تھی۔
جس دن مستان باباصاحب اس دنیا سے رخصت ہونے والے تھے،
صبح حضرت خواجہ علی امیرالدین مزاج پرسی کے لئے تشریف لائے۔ آدھ گھنٹے تک دونوں میں
رازونیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔ اٹھتے وقت خواجہ صاحب نے بآوازِ بلند مستان باباسے کہا
کہ آج آپ تشریف لے جار ہے ہیں اور میں آپ کے ایک دن بعد آجاؤں گا۔ ایک سال بعد ۲۶؍ربیع الثانی کی صبح سے خواجہ صاحب نے بار بار یہ کہنا
شروع کر دیا کہ ہم باباصاحبؒ (باباتاج الدین)کی چھبیسویں کی فاتحہ میں جا رہے ہیں۔
اب واپس نہ آئیں گے۔ جو بھی آپ سے ملنے آتا، آپ یہی کہتے ۔ شام کو جب آپ کو تاج آباد
لے جانے کی تیار ی ہورہی تھی کہ یکایک پورے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ لوگ دوڑ کر کمرے
میں پہنچے تو دیکھا کہ پلنگ پر سجدہ کی حالت میں پڑے ہیں اور روح پرواز کر چکی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"