Topics
ایک شام چائے
پر عبدالغفار ، چوبے اورنورس بھی موجود تھے۔ چوبے ناگپور میں تعینات تھا اور عبدالغفار
کو ساگر کی طرف کو چ کرنا تھا۔ للیتا نے عثمان سے کہا کہ وہ بابا صاحب سے
دعاکرائے کہ ڈاکٹر چودھری کی پریکٹیس چل نکلے۔ چائے کے بعد عبدالغفار کے علاوہ سارے
مرد باباجی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
باباحجرے میں تھے اور ان پر استغراق کی کیفیت
طاری تھی۔ کچھ دیر بعد وہ عالمِ حواس میں آگئے۔ عثمان پر نگاہ پڑتے ہی ان کا چہرہ شاداب
ہوگیا۔"ارے عثمان!تو اتنے دن سے کیوں نہ آیا؟ دیوتا میلا ہورہا نا۔ اس کو نہلاتا
کائے نا۔"
وہ اٹھنے لگے اور اس روز عثمان کو رگھوجی کی
جگہ لینا پڑی۔" نہیں بابا۔آپ بیٹھے رہیں۔ ادھر نہ جائیں۔ رگھوجی خود نہلادیں گے۔"
"رگھو جی نکو نہلا سکتارے۔ نکو نہلا سکتا۔
توکائے کو ڈرتا۔ پھر کائے کو آیارے، کائے کو آیا۔ جا اپنا راستہ لے۔"
عثمان نے پہلی بار بابا کے سامنے زبان کھولی
تھی۔ وہ ان کی خفگی پر گھبرا کے چپ ہوگیا۔
فضل الکریم نے بات کا رخ بدل دیا۔ "بابا
جی ! یہ ڈاکٹر چودھری اورنورس آپ سے ملنے آئے ہیں۔ اور یہ چوبے سلام کے لئے حاضر ہواہے۔"
"سلام کرنے نکو آیارے۔ بولتا گلاب جامن
سے پیٹ نکو بھرا۔ پیٹ میں درد ہوجائے گا رے۔ چھپکلی نکو کھاتے رے۔ تو کھائے گاعثمان
؟"
عثمان جھینپ گیا۔
"ڈاکٹر پیٹ کے درد کا علاج کرتانا۔ زیادہ
کھانے سے درد ہو جاتا۔ بندر اچھارے۔ جھنڈی دکھاتا۔"
ان پر پھر جذب کا غلبہ طاری ہوگیا۔ وہ سب بت
بنے بیٹھے رہے۔ پھر فضل الکریم کے اشارے پر اٹھ کر باہر آگئے۔ اس نے سمجھایا کہ اس
کی بات کا جواب مل چکاہے۔ مگر چوبے کا اصرار تھا ، نہیں ایک بار پھر باباکے پاس جانا
چاہئے۔ نورس نے کوئی رائے نہ دی اس کی آنکھیں سُرخ ہورہی تھیں ۔اورجسم پر لرزہ طاری تھا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ بابا خود حجرے سے برآمد ہوئے ۔ وہ لوگ
سہم گئے۔
"تو ابھی تک نہیں گیارے عثمان ، باباکی
بات نہیں مانا نا۔" اس بار ان کا لہجہ نرم تھا۔" اور بندر تو سلام کرنے آیاتھا۔
تا ج الدین کی دعا لیتا جا۔نالائق!"
عثمان اورنورس کو وہ اپنے حجرے میں لے آئے۔
"اچھا بندرہے جی، اچھا ہے۔ ایمانداری سے کام کرتا۔عثمان ! اس کو جامن کھلانا رے
اور کیا مانگتارے بندر؟"
"کچھ نہیں بابا۔ " نورس نے خوف سے
کانپتے ہوئے کہا۔"بابا نے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ اور پھر انہیں رخصت کردیا۔
نورس اورعثمان گھر پہنچے۔ کھانے کی میز پر
دوعدد گلاب جامن دیکھ کر حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ ملازم نے بتایا کہ بنکٹ
راؤ کا لڑکا دے گیا ہے۔ ان کے گھر نیاز دلائی گئی تھی۔ یہ اس کا تبرک ہے۔
"نیاز کیسی!وہ توہندو ہے۔"
"ہندو ہونے کے باوجود ہر جمعرات کو حضور
صلی اﷲعلیہ وسلم کی نیاز دلواتا ہے۔"
بابا جی کی ہدایت کے مطابق عثمان نے گلاب جامن
نورس کو اصرار کے ساتھ کھلادیے کھانے کے بعد وہ رخصت ہوگیا۔ ایک ہفتہ بھی نہ گزراتھا
کہ اس کی ترقی کے احکام آگئے۔ اور وہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ہوکر بمبئی چلا گیا۔
فضل الکریم ایم۔ اے ۔ سی کے عہدے پرفائز ہوکر
بلاسپور کی طرف کوچ کرگیا۔ بمبئی سے عثمان کی ترقی کا آرڈر آیاتو وہ پس وپیش میں پڑگیا۔
لوگوں کا خیال تھا اسے باباسے دوری گوارا نہ ہوگی۔ اوروہ ناگپور نہ چھوڑے گا۔ مگر اس
کے لئے اس تاثر کے خلاف عمل کرنا بہت دشوار ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر چودھری ہنوز ترقی کی راہ
تک رہا تھا۔ پھر اچانک راجہ بلاسپور کے یہاں سے اس کے لئے بلاواآگیا۔
گاڑی پرسوار ہوتے وقت چودھری کی نگاہ بنکٹ
راؤ پر جاپڑی ۔ وہی اس گاڑی کا گارڈ تھا۔ اگلے اسٹیشن پر وہ اس کے پاس آیا اور باباجی
کا پیغام آیا۔ "مریض کو کھریا کھلانا۔"
ڈاکٹر چودھری کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئی۔
تاہم وہ منزلِ مقصود تک پہنچ گیا۔ اورمریض کو اپنے ساتھ واپس لے آیا۔ وہ راجہ صاحب
کا بھتیجا اورہونے والا داماد تھا۔ اس کے پیٹ میں اس قدر شدید دردہوتا کہ وہ تڑپ تڑپ
جاتاتھا۔ بڑے بڑے ڈاکٹر اس کے علاج سے مایوس ہوچکے تھے۔
چودھری نے دو تین روز علاج کیا مگر مرض کی
شدت میں اضافہ ہوتاگیا۔ اسی دوران بنکٹ راؤ نے ایک بار پھ ربابا کا پیغام یاد دلایا۔
تب اس نے کھر یے کا سفوف کھلا نا شروع کیا اور آٹھ دس روز میں مریض مکمل صحت یاب ہو
گیا۔
اس کارنامے سے چودھری کی شہرت کو چار چاند
لگ گئے اور وہ بڑے معقول مشاہرے پر راجہ صاحب کا ذاتی معالج مقرر ہوگیا۔ تین مہینے
کے اندر اندر اس کی پریکٹس اس قدر بڑھ گئی کہ سراٹھانے کی مہلت نہ رہی۔
عثمان اس ماحول میں اجنبی نظر آتاتھا۔ اس کا
دل اچاٹ ہوگیا۔ اور اس نے وہاں سے اپنا تبادلہ کر الیا۔ وقت دبے پاؤں گزرتا رہا۔ ایک
روز وہ فضل الکریم کے پاس بلاسپور پہنچا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا اورزبردستی اپنے یہاں
ٹھہرا لیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"