Topics
آپ کی ولادت ایک بنجارے گھر میں ہوئی۔ جائے
پیدائش مقام ہینگنا ضلع ناگپور تھا۔ آپ پیدائشی طور پر غیر معمولی صفات کے حامل تھے۔
چھ برس کی عمر ہوگئی لیکن نہ کسی سے بات چیت کرتے اور نہ کھانے پینے کی آپ کو کوئی
پرواتھی۔ والدین پریشان ہوکر آپ کو واکی شریف میں باباتاج الدینؒ کے پاس لائے۔ باباصاحبؒ
نے فرمایا۔
"ان کو مت ستایا کرو۔ یہ بڑی شان والے
ہیں۔ تم نہیں جانتے کہ ان کا نام خواجہ علی امیرالدین ہے۔"
اب لوگ آپ کو خواجہ علی امیر الدین کہنے لگے
اور ہرشخص آپ کا احترام کرنے لگا۔ چند دنوں بعد خواجہ صاحب کے والدین تو گھر واپس چلے
گئے لیکن خواجہ صاحب اور ان کےدادا باباصاحبؒ کے پاس واکی ٹھہر گئے۔ ان دنوں خواجہ صاحب
کا یہ حال تھا کہ اکثر راتوں کو جنگل کی طرف نکل جاتے اور صبح واپس آتے تو ایک دوسانپ
گلے میں ہار کی طرح لٹک رہے ہوتے۔ سانپ کی موجود گی سے ان کے دادا اوردوسرے لوگ ڈر
جاتے ۔ یہ طرزِ عمل بہت دن جاری رہا۔ لیکن سانپ نے کسی کو نہیں کاٹا۔ خواجہ صاحب کے
دادا ناراض ہوتے کہ اگرکسی کو سانپ نے کاٹ لیا تو کیا ہوگا؟ یہ سُن کر خواجہ صاحب سانپوں
کو گلے سے اتار کر زمین پر رکھ دیتے ۔ اور اشارے سے بھگا دیتے۔
جب بابا تاج الدینؒ ندی کی طرف یاجنگل کے اندر
گھومنے جاتے تو لوگ آپ کے ساتھ ہوتے۔ خواجہ علی امیرالدین کے دادا بھی خواجہ صاحب کو
کندھے پر اٹھائے ساتھ ساتھ چلا کرتے تھے۔ مشہور ہوگیاتھا کہ خواجہ صاحب جس شخص کے کندھے
پر سوار ہوجاتے ہیں اس کی دلی مراد ضرور پوری ہوتی ہے۔ چنانچہ لو گ آپ کو بخوشی اپنے
کندھے پر اٹھائے گھومتے جب باباتاج الدینؒ واکی سے شکردرہ گئے تو راجہ رگھوراؤ نے خواجہ
صاحب کے رہنے کا بھی انتظام کردیا۔ شکردرہ میں قیام کے دوران خواجہ صاحب اکثر جلال
میں رہتے تھے۔ اور کبھی کبھی تو تلی زبان میں کچھ کہہ بھی دیتے۔
ایک دن خواجہ علی امیرالدین حالتِ جذب وجلال
میں حضرت بابا تاج الدینؒ کی خدمت میں آئے اور توتلی زبان میں کہا۔
"محل تو الت دوں؟"(محل کو الٹ دوں)
خواجہ صاحب نے دوبار یہ جملہ ادا کیا۔ باباتاج
الدینؒ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس گئے اور انگشتِ شہادت سے تین بار ان کے منہ کو
مارتے ہوئے کہا۔
"حضرت ! یہ دعا درکارہے۔"
یہ سن کر خواجہ صاحب سناٹے میں آگئے اور گھراکر
اپنی قیام گاہ کی طرف بھاگے۔ اس دن کے بعد آپ کا جلال جما ل میں بدل گیا۔ لیکن اس کے
بعد بھی خواجہ صاحب پر بابا صاحبؒ کا اس قدر رعب اور خوف طاری رہا کہ پوری زندگی باباصاحب
کے قریب نہیں گئے۔ دورہی سے سلام ونیاز پیش کر تے تھے۔
خواجہ علی امیرالدین کی شخصیت باباصاحب کے
فیض یافتگان میں ایک منفرد مقام کی حامل سمجھی جاتی تھی۔ آپ ایک جلیل القدر ولی اﷲ
تھے اور بہت سی کرامتیں آپ سے منسوب ہیں ۔ آپ کے وصال کا حال بمبئی والے بابا کے تذکرے
میں آئے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"