Topics

پاگل جھونپڑی

فوج کی ملازمت کو خیر باد کہنے کے بعد بابا تاج الدینؒ کامٹی میں رہنے لگے تھے۔ اس زمانے میں جذب وبیخودی عروج پر تھی۔ لوگ آپ کے استغراق کو پاگل پن سے تعبیر کرتے لیکن کچھ ایسے واقعات رونماہوئے جن کی بنا پر لوگوں میں آپ کی شخصیت ایک صاحبِ کرامت اور صاحبِ فیض کی حیثیت سے ابھرنے لگی۔ اوردیکھتے ہی دیکھتے پریشان حالوں اور عقیدت مندوں کا ہجوم آپ کے گرد رہنے لگا۔ لوگ ہر وقت آپ کو گھیرے رہتے اوراپنی مشکلات بیان کرتے۔ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ رات دن ایک ہوگیا۔ ایک روز بابا تاج الدینؒ نے فرمایا:

"لوگ ہمیں بہت ستاتے ہیں۔ اب ہم پاگل جھونپڑی چلے جائیں گے۔"

چنانچہ خودبخود ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ آپ کو ناگپورکے پاگل خانے میں بھرتی کر دیا گیا۔ تاریخ داخلہ ۲۶؍اگست ۱۸۹۲ء تھی۔

بابا صاحبؒ نے اس پاگل خانے کو ولی خانے میں تبدیل کر دیا اور جلد ہی پاگل خانے کے منتظمین اورڈاکٹر سمجھ گئے کہ پاگل خانے میں وارد ہونے والی یہ ہستی مقبولِ بارگاہ ہے۔ پاگل خانے کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالمجید اورڈاکٹر کاشی ناتھ راؤ آپ کو بہت عزت کا نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کی بستر کی صفائی اورخوردونوش کا انتظام بذاتِ خود کرتے تھے۔پاگل خانے کے قیام کے زمانے میں بابا تاج الدینؒ پرجذب واستغراق کا غلبہ کم ہوگیا۔ اورآپ اکثر شعوری حالت میں رہنے لگے۔ شعوری حالت میں بھی ان سے اس تواتر اورتسلسل سے کرامات کا ظہور ہوتاتھا کہ گویا وہ ان کے نزدیک خرقِ عادت نہیں بلکہ معمول ہے۔

ایک شام مقررہ وقت پربابا تاج الدینؒ کو ان کے کمرے میں پہنچا کر کمرہ مقفل کر دیا گیا۔ اورپاگل خانے کا صدر دروازہ بھی بند کر دیاگیا۔ اگلی صبح محافظ نے بابا صاحبؒ کو باہر دیکھ ششدررہ گیا۔ فوراًمنتظمین اورڈاکٹر کو اطلاع دی۔ وہ لوگ فوراًآئے اور بابا تاج الدینؒ کو ساتھ لے کر ان کے کمرے پاس پہنچے۔ کمرے کا دروازہ ہنوز مقفل تھا۔ وہ لوگ پہلے ہی سمجھ چکے تھے کہ بابا تاج الدینؒ ایک عام آدمی نہ تھے۔ اس لئے انہوں نے اس وقت کچھ نہیں کہا۔ لیکن ان کی عقیدت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اوراس غیر معمولی واقعے کا چرچا پورے ناگپور میں عام ہوگیا۔ پھر تولوگ جوق درجوق زیارت کے لئے حاضر ہونے لگے۔اس کے بعد بابا صاحبؒ اکثر صبح کے وقت باہر سے تشریف لاتے اور اپنے کمرے کے پیچھے لان پر پڑی ہوئی کرسیوں اور بینچوں میں سے کسی ایک پر بیٹھ جاتے۔ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنے مسائل کا حل چاہتے۔ باباصاحبؒ ان کے مسائل کا حل بتاتے۔پاگل خانے میں بابا صاحبؒ کی خدمت میں عوام وخواص کی آمد ورفت اتنی روز افزوں بیٹھتی کہ حکومت نے ملاقاتی فیس مقررکر دی۔ کچھ دنوں بعد یہ ملاقاتی فیس ختم کر دی گئی۔ باباصاحبؒ کے دربار میں چھوٹے بڑے، امیر غریب، حاکم محکوم سب حاضری دیتے تھے۔ ان میں سرانتونی میکڈونلڈچیف کمشنر سی پی وبرار، سول سرجن کرنل رو، ایس پی پولیس موتی ایڈیشنل، اسٹنٹ ،کمشنر خان بہادر ولایت اﷲخاں وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔اس زمانے میں شکردرا، واکی اور بہت سے علاقے مرہٹہ راجارگھو جی راؤ کی ملکیت تھے۔ اس کا عالی شان محل اور اس سے متصل کئی میل لمبا باغ شکردرا میں تھا۔ راجا رگھوراؤ کے بیٹے ونایک راؤ کی رانی حاملہ تھی۔ وضعِ حمل کا وقت قریب آیا لیکن پیدائش عمل میں نہیں آئی۔ موقع پرموجودسرجن اورلیڈی ڈاکٹروں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود کامیابی نہیں ہوئی۔ رانی تکلیف سے بے ہوش ہوگئی اور شام تک اس کی حالت میں کوئی امید افزا تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی۔ شام کو ڈاکٹروں نے مشورہ کیا اور متفقہ فیصلہ دے دیا کہ بچے کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اور اگر آپریشن کے ذریعے بچے کو باہر نہ نکالا گیا تو رانی کو موت واقع ہو جائے گی۔راجہ رگھوراؤ ڈاکٹروں کے اس فیصلے سے تذبذب میں پڑگئے۔ اوران کے ذہن نے اس بات کو قبول نہیں کیا۔ صبح چھ بجے راجارگھوجی پوجا سے فارغ ہوئے تھے کہ ان کا موٹر ڈرائیور حاضرِ خدمت ہوااور اس نے کہا۔

"حضور! میں جو کچھ کہتاہوں، اس پر عمل کیجئے۔ آپ میرے ساتھ پاگل خانے چلئے، وہاں ایک بہت بڑے ولی اﷲتشریف فرماہیں۔ سب لوگ ان سے فیض اٹھارہے ہیں۔ آپ بھی چھوٹی رانی کے سلسلے میں ان کی خدمت میں عرض کیجئے۔"

راجا رگھوجی راؤ اسی وقت اٹھے اور ننگے پیرموٹر میں سوار ہوگئے۔ اورڈرائیور ممکنہ تیز رفتار ی سے گاڑی چلاتاہواپاگل خانے کے صدر دروازے سے پرجارکا۔ پاگل خانے کے منتظمین اورسپرنٹنڈنٹ کو راجہ صاحب کی آمد کا علم ہواتو وہ فوراًبھا گے ہوئے استقبال کو آئے۔ ڈرائیور نے راجہ صاحب کو وہیں موٹر کے پاس رکنے کوکہا اور خودلان میں حضرت بابا صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا۔

"حضور!شکردرا اسٹیٹ کے راج رگھوجی راؤ حاضرِخدمت ہونے کی اجازت اورقدم بوسی کی سعادت حاصل کرناچاہتے ہیں۔"

بابا صاحبؒ نے فرمایا: "ہم فقیرجی حضرت، ہمارے سے راجہ کا کیا کام جی حضرت۔"ڈرائیور نے بہت منت سماجت کی تو بابا صاحبؒ خاموش ہوگئے۔ خاموش کو اجازت سمجھ کر وہ دوڑا ہواراجہ رگھوجی راؤ کے پاس پہنچا اورکہا۔

"فوراًچلئے اور حضور باباصاحبؒ کے قدم پکڑ لیجئے۔"

راجہ جلد سے اندر پہنچا اورباباصاحبؒ کے پیروں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ بابا صاحبؒ نے اس کو ایک نظر دیکھ کر فرمایا۔

"اِدھر کیا کرتے جی حضرت!اُدھر جانا، لڑکاپیداہوا توخوشیاں منانا۔"

ڈرائیور حضوربابا صاحبؒ کا بہت معتقدتھا۔ اوراکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتاتھا۔ وہ بابا صاحبؒ کے مخصوص لب ولہجہ سے بخوبی واقف تھا۔ اس نے راجہ سے کہا۔

"راجہ صاحب بس کام ہوگیا۔ واپس چلئے۔"

اس کے ساتھ ہی اس نے گھڑی دیکھ کروہ وقت نوٹ کر لیا جس وقت بابا صاحبؒ نے متذکرہ بالا جملے اداکئے تھے۔واپسی میں راجہ رگھوجی راؤ کی موٹر محل کے صدر دروازے کے قریب پہنچی تو انہیں شہنائیوں اور نفیریوں کی آواز سنائی دی۔ آنے جانے والے ملازمین کے چہروں پر خوشی کے آثار نظر آرہے تھے اور وہ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ موٹر کے رکتے ہی سب لوگوں نے راجہ کی موٹر کو گھیر لیا اور کنور صاحب کی پیدائش کی خوش خبری سنائی۔راجہ یہ خبر سن کر خوشی سے بے خود ہوگیا۔ اورحکم دیا کہ خزانے کا منہ کھول دیا جائے۔ ڈرائیور نے راجہ سے کہا۔

"سرکار! پنڈتوں سے جو کنور صاحب کی جنم پتری اور جنم کنڈلی بنائیں گے اور ڈاکٹروں سے پیدائش کا صحیح وقت معلوم کرادیجئے۔"

پنڈتوں اورڈاکٹروں نے جو وقت بتایا وہ بالکل وہی تھاجس وقت حضور بابا صاحب  نے فرمایا تھا۔ اِدھر کیا کرتے جی حضرت! اُدھر جانا، لڑکا پیداہواتو خوشیاں منانا۔"

Topics


Tazkirah Baba Tajuddeen Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

عارف باﷲخاتون

مریم اماں

کے نام

جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ؒ

کا ارشاد ہے:

"میرے پاس آنے سے پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"