Topics

حالاتِ زندگی

نام اورالقاب:

 آپ کانام محمدتاج الدین تھا اور پیارسے چراغ دین کہلاتے تھے۔ عرف عام میں تاج الدین بابا کہلائے۔ آپ کے القاب یہ ہیں۔

تا ج الاولیاء

تاج الملت والدّین

تاج العارفین

تاج الملوک

سرا ج السالکین

شہنشاہ ہفت اقلیم

شہنشاہ ہفت اقلیم باباصاحب کا ایسا لقب ہے جو تشریخ وتوضیح طلب ہے۔ اس کی مختصر تشریح یوں ہے کہ تمام عالم کو اﷲتعالیٰ کے نظامِ تکوین میں سات حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ جو سات ( ہفت)اقلیم کہلاتے ہیں۔ چنانچہ باعثِ تکوینِ کائنات حضورِ اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کا وہ نائب جس کے انتظام واختیار میں ساتوں اقلیم ہوتے ہیں۔ شہنشاہِ ہفت اقلیم کہلاتاہے۔

خاندان:            

بابا تاج الدین اولیاءؒ کا سلسلۂ نسب امام حسن عسکری سے ملتاہے۔ امام حسن عسکری کی اولادمیں فضیل مہدی عبداﷲعرب، ہندوستان تشریف لائے اور جنوبی ہندکے ساحلی علاقے مدراس میں قیام کیا۔ حضرت فضیل مہدی عبداﷲکے دو صاحبزادے حسن مہدی جلال الدین اور حسن مہدی رکن الدین سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ بابا تاج الدین حسن مہدی جلال الدین کی اولاد میں سے ہیں۔

بابا صاحب  کے بزرگوں میں جناب سعدا لدین مہدی مغلیہ دورمیں فوجی افسر ہوکر دہلی آئے۔ بادشاہ دہلی کی طرف سے اہارنام کا ایک موضع بطور جاگیر انہیں دیا گیا۔ فرّخ سیر کے دورمیں صوبے کے گورنر نواب مالا گڑھ نے ناراض ہوکر حقوقِ جاگیرداری ضبط کر لئے۔ صرف کاشتکار ی کی حیثیت باقی رہ گئی۔

باباتاج الدین کے دادا کا نام جمال الدین تھا۔ بابا صاحب  کے والد جناب بدرالدین مہدی تھے جو ساگر ڈپو میں صوبے دار تھے۔ اور ان کی سکونت اہار میں تھی۔ ساگر ہندوستان کے صوبے سی ۔ پی میں واقع ہے۔ بابا صاحب  کی والدہ کانام مریم بی تھا۔

پیدائش:

 حسن مہدی بدرالدین کی اہلیہ مریم بی صاحبہ نے ایک نہایت تاثر انگیز خواب دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ چاند آسمان پرپوری آب و تاب سے چمک رہاہے اور ساری فضا چاندنی سے معمور ہے۔ یکایک چاند آسمان سے گیند کی طرح لڑھک کر ان کی گودمیں آگرا۔ اورکائنات اس کی روشنی سے منوّر ہوگئی۔ اس خواب کی تعبیر بابا تاج الدین ؒ کی پیدائش کی صورت میں سامنے آئی۔

عام روایت کے مطابق بابا تاج الدینؒ اولیاء ۵؍رجب المرجب ۱۲۷۷ھ مطابق ۲۷؍جنوری ۱۸۶۱ء کو پیدا ہوئے ۔ آپ کی پیدائش پیر کے دن فجر کے وقت بمقام کامٹی ، ناگپور میں ہوئی۔ قلندر بابا اولیاءؒ (نواسہ بابا تاج الدینؒ ) نے کتاب "تذکرہ تاج الدین باباؒ "میں لکھا ہے:

"تحقیق وتلاش کے بعد بھی نانا تاج الدین کا سالِ پیدائش معلوم نہیں ہوسکا۔ بڑے نانا (بابا تاج الدین کے بھائی) کی حیات میں مجھے زیادہ ہوش نہیں تھا۔ والد صاحب کو ان باتوں سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ میں نے بڑے نانا کی زبانی سنا ہے کہ تاج الدین کی عمر غدر میں (یعنی ۱۸۵۷ء میں) چند سال تھی۔"

ان دونوں روایتوں کو سامنے رکھا جائے تو باباصاحب کی سنِ پیدائش میں چند سال کا فرق پڑتاہے۔

عام بچوں کے برعکس بابا صاحب  پیدائش کے وقت روئے نہیں بلکہ آپ کی آنکھیں بند تھیں اور جسم ساکت تھا۔ یہ دیکھ کر وہاں موجود خواتین کو شبہ ہوا کہ شاید بچہ مردہ پیداہواہے۔ چنانچہ قدیم قاعدہ کے مطابق کسی چیز کو گرم کر کے پیشانی اورتلووں کو داغا گیا۔ بابا صاحب  نے آنکھیں کھولیں ، روئے اور پھر خاموش ہوکر چاروں طرف ٹک ٹک دیکھنے لگے۔

بچپن اورجوانی:

بابا تاج الدینؒ کی عمر ابھی ایک برس تھی کہ ان کے والدکا انتقال ہوگیا اور جب آپ نو سال کے ہوئے تو والدہ کا سایہ بھی سرسے اٹھ گیا۔ والدین کے انتقال کے بعد نانا، نانی اور ماموں نے بابا صاحب کو اپنی سر پرستی میں لے لیا۔

چھ سال کی عمر میں بابا صاحب  کو مکتب میں داخل کر دیا گیا تھا۔ ایک دن مکتب میں درس سن رہے تھے کہ اس زمانے کے ایک ولی اﷲحضرت عبداﷲشاہ قادریؒ مدرسے میں آئے اور استاد سے مخاطب ہوکر کہا۔

"یہ لڑکا پڑھاپڑھایاہے، اسے پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔"

لڑکپن میں بابا تاج الدین ؒ کوپڑھنے کے علاوہ کوئی شوق نہ تھا۔آپ کھیل کود کے بجائے تنہائی کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ پندرہ سال کی عمر تک آپ نے ناظرہ قرآنِ پاک ، اردو، فارسی اور انگریزی کی تعلیم پائی۔

فوج میں شمولیت:

ایک مرتبہ ناگپور کی کنہان ندی میں شدید طغیانی آگئی اورسیلاب میں بابا صاحب  کے سرپرستوں کا ساراسامان بہہ گیا۔ بے سروسامانی بابا صاحب  کی ملازمت کا فوری سبب بنی۔ باباصاحب نے فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔ اورناگپور کی رجمنٹ نمبر۸؍(مدراسی پلٹن) میں شامل کر لئے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۸؍سال تھی۔

کچھ عرصہ بعد بابا صاحب  کی رجمنٹ کاتقرر ساگر میں کر دیا گیا۔ بابا تاج الدین ؒ کے نواسے قلندربابا اولیاءؒ لکھتے ہیں:

نانا تاج الدین فوج میں بھرتی ہونے کے بعد ساگر ڈپو میں تعینات کئے گئے تھے۔ رات کے ۹؍ بجے گنتی سے فارغ ہوکر بابا داؤد مکّی کے مزار پر تشریف لے جاتے ۔ وہاں صبح تک مراقبہ اورمشاہدہ میں مصروف رہتے اور صبح سویرے پریڈ کے وقت ڈپو میں پہنچ جاتے۔ یہ مشغلہ پورے دو سال تک جاری رہا۔ دوسال بعد بھی ہفتہ میں ایک دو باران کے یہاں حاضری ضرور دیا کرتے تھے۔ جب تک ساگر میں رہے اس معمول میں فرق نہیں آیا۔

کامٹی میں باباتاج الدین کی نانی کو جب اس بات کی خبر ملی کہ نواسہ راتوں کو غائب رہتاہے تو خیال آیا کہ شاید آپ بری صحبتوں کا شکار ہوکر بے راہ رو ہوگئے ہیں۔ یہ سوچ کر نانی صاحبہ ساگر جاکر ٹھہریں تاکہ یہ معلوم کریں کہ نواسہ راتوں کو کہاں رہتاہے۔ نانی نے اس خبر کو سچ پایا کہ نواسہ رات کو کہیں جاتاہے۔ ایک رات کہیں باہر رہ کر صبح باباصاحب گھر آئے تو نانی نے ناشتہ سامنے رکھا۔ باباصاحب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بھوک نہیں ہے۔ اس جواب سے نانی مزید فکر مند ہوئیں اور پکّا ارادہ کر لیا کہ رات کو نواسے کا تعاقب کرکے دیکھیں گی کہ وہ کہاں جاتاہے۔

رات کو جب بابا صاحب  ویرانے کی طرف روانہ ہوئے ، نانی بھی نظر بچا کر چپکے چپکے ہولیں۔ دیکھا کہ نواسہ ایک مزار کے اندر داخل ہوا۔ چندے انتظار کے بعد اندر جاکر دیکھا تو بابا صاحب   ذکر وفکر میں مشغول تھے۔ نواسے کی عبادت وریاضت میں حد درجہ مستغرق دیکھ کر نانی صاحبہ کے دل کا بوجھ اترگیا۔ انہوں نے بابا صاحب   کو بہت دعائیں دیں اور خاموش سے واپس چلی آئیں۔

بابا صاحب   صبح کو نانی کے پاس آئے تو ان کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھے۔ نانی صاحبہ نے ناشتہ پیش کیا تو بابا صاحب   بے پتھر دکھاتے ہوئے کہا۔

"نانی! میں تو لڈوپیڑے کھاتاہوں۔"

یہ کہہ کر باباصاحب نے پتھروں کو یوں کھانا شروع کیا جیسے کوئی مٹھائی کھاتاہے۔ نواسے کی یہ کیفیت دیکھ نانی کوکچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔

دونوکریاں نہیں کرتے:

رفتہ رفتہ بابا تاج الدین کی طبیعت میں استغراق پیداہونے لگا۔ ان ہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوجس نے بابا صاحب   کی زندگی کے اگلے دور کی بنیاد ڈالی۔ بابا صاحب کی ڈیوٹی اسلحے کے ذخیرے پرلگائی گئی تھی۔ ایک رات دو بجے جب باباصاحب اسلحے کے ذخیرے پر پہرے دے رہے تھے، انگریز کیپٹن اچانگ معائنہ کے لئے آگیا۔ بابا صاحب  کو تندہی سے پہرہ دیتے دیکھ کر واپس ہوا۔ تو نصف فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد کے پاس سے گزرا۔ مسجد کا صحن چاندنی رات میں صاف نظر آرہاتھا۔ کیپٹن نے دیکھا کہ وہ جس سپاہی کو پہرہ دیتے دیکھ کر آیا ہے وہ خشوع وحضوع کے ساتھ صحنِ مسجدمیں نمازادا کر رہاہے۔ سپاہی کو ڈیوٹی سے غفلت برتتے دیکھ کر اسے سخت غصہ آیا۔ وہ اسلحہ خانہ میں واپس آیا۔ اس کے قدموں کی چاپ سن کر سپاہی پکارا"ہالٹ"کیپٹن آگے بڑھا اوریہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سپاہی (باباصاحب) اسی جگہ موجودہے۔ کچھ کہے بغیر اس نے مسجد کا رخ کیاجہاں وہ سپاہی کو نمازمیں مشغول دیکھ چکا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر ششدررہ گیا کہ باباصاحب اسی طرح محویت کے عالم میں مصروفِ عبادت ہیں۔ وہ ایک بارپھر تصدیق کے لئے اسلحہ خانہ پہنچا تو بابا صاحب  کوڈیوٹی پرموجود پایا۔ دوسری بار مسجد جاکر دیکھا تو وہی منظر سامنے تھا۔

دوسرے روز اس نے اپنے بڑے افسر کے سامنے بابا صاحب ؒ کو طلب کرکے کہا۔ ہم نے تم کو رات دودوجگہ دیکھا ہے۔ ہم سمجھتاہے کہ تم خدا کا کوئی خاص بندہ ہے۔" یہ سننا تھا کہ بابا تاج الدین ؒ کو جلال آگیا۔ سرکاری وردی اوردوسرا سامان کیپٹن کے سامنے لاکر رکھا اور اپنے مخصوص مدراسی لہجے میں فرمایا:

"لوجی حضرت! اب دودو نوکریاں نہیں کرتے جی حضرت۔"

یہ کہہ کر صاحب جذب وجلال میں فوجی احاطے سے باہر نکل آئے۔ کامٹی میں رشتہ داروں کو یہ اطلاع دی گئی کہ باباصاحب پر پاگل پن کا دورہ پڑگیاہے۔ اورانہوں نے ملازمت چھوڑدی ہے۔ نانی بے تاب ہوکر ساگر آئیں اوردیکھا کہ نواسے پر بے خودی طاری ہے۔ وہ بابا صاحب کو کامٹی لے گئیں اور دماغی  مریض سمجھ کر ان کا علاج شروع کیا۔لیکن کوئی مرض ہوتا توعلاج کارگرہوتا۔ چارسال تک بابا تاج الدینؒ پر جذبہ واستغراق کا شدید غلبہ رہا۔ لوگ ان کو مخبوط الحواس سمجھ کر چھیڑتے اور تنگ کرتے تھے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مجزوبانہ کیفیات میں ہوش کے اشارے اور ولایت کا رنگ دیکھ کر باباصاحب کا احترام کرتے تھے۔

نسبتِ فیضان:

 اس بات کاکوئی سراغ نہیں ملتاکہ باباتاج الدینؒ نے کسی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ معتبر ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس عالمِ رنگ و بو میں آپ کا پیرو مرشد کوئی نہیں تھا۔ پھر دوہستیاں ایسی ہیں جن سے صرف قربت اور نسبت ثابت ہے۔ایک سلسلۂ قادریہ کے حضرت عبداﷲشاہ قادریؒ ، دوسرے سلسلۂ چشتیہ کے باباداؤدمکّی ؒ ۔

حضرت عبداﷲشاہ صاحب وہی بزرگ ہیں جو باباصاحب کے زمانۂ تعلیم میں مکتب آئے تھے اور استاد کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ یہ لڑکا (باباتاج الدینؒ )پڑھاپڑھایاہے اسے پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت عبداﷲشاہ قادریؒ کا مزار کامٹی اسٹیشن کے پاس ہے۔ نوجوانی کے زمانے میں بابا تاج الدین ؒ حضرت عبداﷲشاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ حضرت عبداﷲشاہ کے سجادہ نشین کی روایت کے مطابق جب عبداﷲشاہ صاحب ؒ کے وصال کا وقت قریب آیا۔ تو بابا تاج الدین ؒ ان کے پاس آئے۔ اس وقت شربت بناکر شاہ صاحب کو پیش کیا گیا۔ انہوں نے چند گھونٹ پی کر باباصاحب کو پلادیا۔

بابا داؤد مکیؒ خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی ؒ کے خلیفہ تھے۔ اور خواجہ شمس الدین ترک ؒ کو مخدوم علاؤالدین علی احمد صابر کلیریؒ سے خلافت ملی تھی۔باباداؤد مکی ؒ مرشد کی حکم پر ساگر آئے۔ اوریہیں وصال فرمایا۔ ان کو بظاہر کوئی خلیفہ نہیں تھا ۔ باباد اؤد ؒ کے وصال کے کوئی چار سال بعد جب بابا تاج الدینؒ فوجی ملازمت کے سلسلے میں ساگر گئے تو آپ نے بابا داؤد مکیؒ کی مزارپر تقریباًدوسال ریاضت ومراقبہ میں گزارے روایات کے مطابق یہیں بابا صاحب  کو چشتیہ نسبت اویسیہ طریقے پر منتقل ہوئی۔ اویسیہ نسبت وہ نسبت یا رابطہ ہے جس کے تحت سالک کو کسی بزرگ کی روح سے فیض حاصل ہوتاہے۔ یعنی ایسا فیض جو مرشد کے جسمانی طورپر سامنے نہ ہوتے ہوئے بھی اس اسے منتقل ہو۔ یہ وہی نسبت ہے جس کے تحت حضرت اویس قرنیؓ کو سرکارِدوعالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علوم وفیوض حاصل ہوئے تھے۔ قلندربابا اولیاءؒ فرماتے تھے کہ بابا تاج الدین ؒ وحضرت عبداﷲشاہ ؒ کی قربت حاصل ہوئی تھی اور نسبتِ چشتیہ بابا داؤدمکی ؒ کی مزارپر منتقل ہوئی تھی۔ لیکن بابا صاحب  کی تعلیم و تربیت خود جناب سرورِکائنات ﷺ، حضرت علیؓ ، حضرت اویس قرنیؓ نے کی ہے۔ نیز بابا صاحب  کو ہر سلسلہ کے اکابر اولیاء اﷲکی ارواح سے فیض حاصل ہواہے۔ باباتاج الدینؒ کے کئی ارشادات میں اویسیہ فیضان کی طرف اشارہ موجودہے۔

بابا صاحب  اپنی ولایت کے رنگ اور نسبت کو اکثر یہ کہہ کر بھی ظاہر کرتے تھے کہ ہمارا نام تاج محی الدین ، تاج معین الدین ہے۔


Topics


Tazkirah Baba Tajuddeen Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

عارف باﷲخاتون

مریم اماں

کے نام

جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ؒ

کا ارشاد ہے:

"میرے پاس آنے سے پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"