Topics
متھرا پرشاد
امراؤتی والے کہتے تھے۔باباصاحبؒ کی غلامی پر پہلے بھی بہت سے ہندوبھائی مجھے طعنے
دیتے تھے۔ میرے گھروالے کہتے تھے کہ تیرا دھرم بھرشٹ ہوگیا۔ یہ لعنت ملامت اُس وقت اور بھی زیادہ ہوگئی جب میرا داماد مرض الموت میں گرفتار ہوا۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا۔"تم
نے اپنادھرم توخراب کر ہی لیا۔ اب دنیا بھی خراب ہونے والی ہے۔ ایک بیٹی ہے وہ بھی
صبح وشام میں بیوہ ہونے والی ہے۔ آخر تمہارے باباکس دن کام آئیں گے؟ تم ان کی بڑی کرامتیں
بیان کر تے رہتے ہو۔ اپنے داماد کو تو موت سے بچاؤ۔"
بیوی کی بات تیر کی طرح میرے دل میں لگی۔ میں
نے کہا اس کو بس میں رکھ کرناگپور لے چلو۔ ڈاکٹروں نے کہایہ کچھ ہی دنوں کا مہمان ہے،
اگر مارنے کی جلدی ہے تو ضرور لے جاؤ۔ دوسرے لوگوں نے بھی بہت سمجھایا لیکن میں نہیں
مانا۔ میں نے ان سے کہہ دیا کہ اسے باباصاحب سے ٹھیک کر اکے دم لوں گا۔ ورنہ پھر تمہیں
اپنی شکلیں نہیں دکھاؤں گا۔"
مختصر یہ کہ میرے گھر والوں نے میرے داماد
کو بستر پر ڈال کر بس میں لٹا دیا اورڈاکٹرکو ساتھ لے کر شکردرہ پہنچے۔ میں بس سے اتر
کرسیدھاباباصاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوااور جاتے ہی عرض کیا۔ "بابا! میں اپنے داماد
کو ساتھ لایا ہوں جو چندلمحوں کا مہمان ہے۔ یا تو یہ اچھا ہو جائے ورنہ آپ کامنہ یہاں
بھی کالا ، وہاں بھی کالا۔"
میری یہ گستاخانہ بات سن کر باباصاحبؒ نے ایک
ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑااور دوسرا ہاتھ مجھے مارنے کے لئے اٹھا یا اورفرمایا۔"کیاکہا؟"
میں نے کہا۔"باباچاہے مارو، چاہے چھوڑو۔
بات یہی ہے جو میں نے کہی ہے۔ میری عزت وآبرو آپ کے ہاتھ میں ہے۔" باباصاحبؒ نے
ہاتھ جھٹک کر فرمایا۔"جا، دال بھات کھلا، اچھا ہو جاتاہے۔"
میں واپس بھاگا اور دال بھات تیار کرکے اس
کو کھلایا۔ تمام لوگ میری اس حرکت کو دیوانہ پن سمجھ رہے تھے کیوں کہ پیچش کے مریض
کو آخری اسٹیج پر جب کہ پانی بھی ہضم نہیں ہوتا۔ دال بھات کھلانا کوئی عقل مندی کی
بات نہیں تھی۔ داماد دال بھات کھاتے ہی سوگیا۔ شام کو جاگا اور دوبارہ دال بھات مانگا۔
اورکھاکر پھر رات بھر سویا رہا۔ اگلے دن وہ بالکل تندرست ہوگیا۔ اور اپنے پیروں سے
چل کر باباصاحبؒ کی خدمت میں حاضرہوا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"