Topics
دونوں رات
بھر باتیں کرتے رہے۔ فضل الکریم نے حیرت انگیز انکشافات کئے۔ باتوں ہی باتوں میں بھوت
بنگلے کا ذکر چھڑگیا۔ فضل الکریم نے کہا۔" میں نے اس بنگلے میں وقوع پذیر ہونے
والے سارے واقعات کا کھوج لگالیاہے۔ تاہم ایک دو کڑیاں باقی ہیں۔ تمہیں اپنے خاندان
کے بارے میں کچھ بتانا ہوگا۔ باباجی کی بات سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ بھونسلہ خاندان
سے تمہارا کوئی تعلق ہے۔"
عثمان نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا۔"ہمارے
پر دادا نے اسلام قبول کیا تھا۔ان کو تعلق چھوٹا ناگپور کے مرہٹہ خاندان سے تھا۔"
فضل الکریم کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیداہوئی
اور اس نے نہایت قدیم دستاویزنکالتے ہوئے کہا۔"شاید تمہیں معلوم نہ ہوکہ راجہ
رگھوجی کی جاگیر حال ہی میں کورٹ آف وارڈ سے واگزار ہوئی ہے۔ گورنمنٹ نے مجھے اس کا
کسٹوڈین مقررکیا اور اس سلسلے میں گزشتہ ماہ مجھے بمبئی جانا پڑا۔ رگھوجی کا محل قرضوں
کی وجہ سے بحقِ سرکار ضبط ہوچکا ہے۔ "فضل الکریم نے سردآہ بھرتے ہوئے اپنی بات
جاری رکھی۔"شاید تمہیں علم نہ ہو رگھو جی کی اس وقت کوئی اولاد نہیں ہے۔ او ر
اس کے خاندان کے سارے افراد انگریزوں نے پہلے ہی تہہِ تیغ کردیے ہیں۔ لیکن راج کمار
روپوش ہوچکاتھا۔ اس کا سراغ نہیں مل سکا۔" یہ کہہ کر اس نے دستاویز پر ایک جگہ
انگلی رکھ دی اور عثمان سے پوچھا ۔"تمہارے پردادا کاسابقہ نام یہ نہیں تھا؟"
عثمان نے اپنے حافظے پر زور دیتے ہوئے کہا۔"غالباً
ہمارے دادی یہی نام بتاتی تھیں۔"
ٍٍ فضل الکریم نے تقریباً اچھل کر اپنے جذبات
ظاہرکئے۔"عثمان !تم نے باباکی بات نظر انداز کرکے اور مندرکے بت کو غسل نہ دے
کر بہت بڑی غلطی کی ہے ورنہ رگھوجی کے ساتھ تمہارے بھی دن پھر جاتے۔ اب تو سب کچھ ختم
ہوچکا۔ افسوس!"
" یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کریم! میری سمجھ
میں خاک بھی نہ آیا۔"عثمان بھونچکا سا رہ گیا۔
فضل الکریم نے بتایا۔"رگھوجی کے مال واسباب
کی قرقی اورضبطی کے دوران یہ دستاویز کمشنر کے ہاتھ لگی۔ اس میں یہ بھی درج تھا کہ مندر اورمہادیو کابت کہاں ہے۔ وہ ذہین
آدمی تھا۔ اس نے سراغ لگالیا۔ راجکمار بالا جی فرار سے پہلے دوروز پجاریوں کے بھیس
میں محل کے احاطے والے مندر کے اندر روپوش رہا۔ اس نے پہرہ بٹھا کر مہادیو کے بت کو
غسل دیا۔ سیندورکی موٹی تہہ اتر وادی۔ اس سے بت کی پشت پر کھدی ۔ ہوئی وہ تحریر ابھر
آئی جس میں دفینے کے مقام کی نشان دہی کی گئی تھی۔"
عثمان نے دستاویز کو ایک بار پھر غور سے دیکھا
اوراسے یاد آیا کہ اسی تحریر اور دستخط کے چند پرانے کا غذات اس نے پردادی کے صندوقچے
میں دیکھے تھے۔ مگر چند ہی روز پہلے گھر کی صفائی کرتے وقت وہ سب کباڑیے کو بیچ دیے
تھے۔
فضل الکریم نے اپنا سرپیٹ لیا۔" یہ تو
بہت ہی برا ہوا۔ اب تم اپنا استحقاق ثابت نہیں کر سکتے۔ میری تمام کوششیں بے کار گئیں۔
میں نے تمہاری خاطر یہ دستاویزریکارڈ سے اڑا کر اپنی تحویل میں لے لی تھی۔ حالانکہ
یہ بڑا سنگین جرم ہے۔" پھر اس نے دستاویز کو پُرزے پرزے کرتے ہوئے کہا۔"
اب اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس مرحلے پر بنگلے کے آسیب کا راز بھی بتایا جاسکتاہے۔"
اور پھر حجاب درحجاب پردے اٹھنے لگے۔
"بھوت بنگلہ ہرگز آسیب زدہ نہ تھا۔ تم
نے جو سانپ مارے تھے وہ ناگ تھا۔ دراصل رات کی تاریکی میں وہ چھت گیری اورچھپر کے درمیانی
خلا میں گھس جاتے اور وہاں بسنے والے پرندوں کے انڈے بچے کھاجاتے ۔ پرندے شورمچاتے
اورچیخ کراڑ جاتے۔ رات کے سناٹے میں ان پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ ، گرنے کی پھٹاپھٹ اورملی
جلی چیخ پکار کا شور گونجتا توماحول اور بھیانک ہوجاتا۔ بھوت پریت، واہمہ پہلے ہی ذہن
پر مسلط تھا۔ اس لئے چھوٹے موٹے ہنگامے کچھ اور ہی صورت اختیار کرلیتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"