Topics
ڈاکٹر سید
محمود صاحب بہا رکے رہنے والے تھے۔ جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بیرسٹر
ہوئے ۔ پٹنہ میں پریکٹس کرتے تھے۔ لیکن تحریکِ خلافت کے وقت میدانِ سیاست میں آگئے۔
کانگریس کے ممتاز لیڈر تھے اور معتمد بار صوبے اورمرکز میں وزیر مقررہوئے۔ مصر میں
سفارت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ ڈاکٹر محمود صاحب بیان کرتے ہیں:
۱۹۲۴ ء میں ناگپور میں ہندومسلم جھگڑے چل رہے
تھے۔ بہت کشت و خون ہورہا تھا۔ طرفین سے لوگ جیل جا رہے تھے۔ مسجد کے سامنے باجے کا
جھگڑا تھا۔ گاندھی جی نے مجھ سے کہا کہ تم وہاں جاکر اس کو طے کراؤ۔ مولاناشوکت علی
مرحوم پہلے جا چکے تھے۔ لیکن ان کو کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے پہلے وہاں جانے سے انکار
کیا۔ پھر گاندھی جی اورحکیم اجمل خاں صاحب کے اصرار پر راضی ہوا۔ حکیم صاحب نے مجھ
سے کہا تھا کہ تم کوبزرگوں سے ملنے کاشوق ہے۔ وہاں جاکر تم باباتاج الدین سے ملنا اور
ان سے اس جھگڑے کے طے ہو جانے کے لئے دعا کرانا۔
میں ناگپور گیا اور بابا تاج الدین کے ہاں حاضر
ہوا۔ وہ راجہ بھونسلہ کے قلعے کے اندر رہتے تھے۔ راجہ ان کی بڑا معتقد تھا۔ اور ان
کی بڑی خدمت کرتاتھا۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہو اکہ باباآج باہر نہیں نکلیں گے۔ مجھے
بڑی مایوسی ہوئی۔ میں دروازے پر کھڑا تھا کہ سامنے دالان میں ایک دراز قد سیاہ فام
بزرگ جن کی آنکھیں سرخ تھیں۔ یک بیک آکر کھڑے ہوگئے اور پھر اندر چلے گئے۔ نوکر نے
آکر آوازدی کہ بابااب نکل لیں۔ چنانچہ وہ نکلے اورایک فٹن میں سوار ہوکر روانہ ہوئے۔
لوگوں کا اژ دہام گاڑی کے پیچھے دوڑا اور ان پر پھول پھینکتا رہا۔ اورباباکچھ بولتے
رہے۔ اسی میں لوگ اپنے مطلب کی با ت نکال لیا کرتے لیکن کسی سے بھی کوئی بات صاف نہیں
ہوتی۔ مجھ سے بھی لوگوں نے گاڑی کے ساتھ دوڑنے کی فرمائش کی لیکن میں نہیں گیا۔ پھول
البتہ ان پر پھینک دیا۔ لوگ اس طرح ان کے ساتھ میل دو میل دوڑا کرتے۔ یہ برابر کا دستور
تھا۔ میں موٹر پر تھا۔ کچھ دیر بعد میری موٹر نے دوڑکر ان کی گاڑی کو پکڑ لیا۔ اب لوگوں
کی بھیڑ چھٹ گئی تھی۔ میں گاڑی پکڑ کر چلنے لگا۔ بابامیری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا۔"کیا
چاہتاہے، مکہ مدینہ جائے گا؟"
میں نے عرض کیا۔"انگریزوں کی غلامی اب
برداشت نہیں ہوتی۔ہندومسلمانوں کو برابر لڑاتے رہتے ہیں۔ وہ ہندوستان سے کب تک جائیں
گے؟"
بابانے ذرا بے پروائی سے جواب دیا۔"ہاں!ہاں!
ضرور چلے جائیں گے۔"
راجہ کے دو ملازم گاڑی پر ان کے ساتھ ہاتھ
باندھے ہوئے بیٹھے رہتے تھے۔ باباسے ایسی صاف بات شاید انہوں نے پہلے نہیں سنی تھی۔
وہ بہت گھبرائے اورکہا کہ آج تک بابانے ایسی صاف طور پر بات نہیں کی تھی۔تم تو کوئی
دیوتا معلوم ہوتے ہو۔ پھر میں نے کہاکہ آپ کی موجود گی میں ناگپور میں ہندومسلم جھگڑاہو۔
یہ تعجب کی بات ہے۔ ہندوتو آپ اس قدر سیواکرتے ہیں، پھر مسلمانوں سے کیوں لڑتے ہیں؟
آپ دعا کیجئے کہ یہ قضیّہ طے ہوجائے۔"
بابا نے کہا۔" ہاں ضرور طے ہو جائے گا۔"
اس طرف سے کچھ سفید پوش مسلمان گزررہے ۔ میں
نے ان کو مخاطب کرکے آواز دی کہ دیکھو باباکیا کہتے ہیں۔ بابا کہتے ہیں کہ ہندومسلم
جو جھگڑا ہورہاہے وہ طے ہو جانا چاہئے۔
بابا نے کہا ۔"ہاں!ہاں! طے ہو جانا چاہئے۔"
جب میں گاڑی سے اترنے لگا تو بابا نے پوچھا۔"اور
کیاچاہتاہے؟"
میں نے کہا۔"آپ کی دعا چاہتاہوں۔"
انہوں نے سرسے اتارکر ایک سرخ ٹسرکامرہٹی صافہ
مجھے دیا۔ اورکہا"رکھ لے، ہندومسلم جھگڑامیں نے طے کر ادیا۔"
میں پھر باباکے پاس گیا۔ راجہ کو معلوم ہوا۔
اس نے مجھے بلوایا اورمیرے پیروں پر پھول چڑھائے اورمٹھائی رکھی کہ آپ تو کوئی دیوتا
ہیں مجھے اپنے ملازمین سے آپ اور باباکی گفتگو کاحال معلوم کرکے تعجب ہوا کہ ایسی صفائی
سے گفتگو باباکسی سے نہیں کرتے ۔ پھر مجھے بابا کے پاس بھجوادیا۔ وہ
ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اورایک ملازم ان کی پیردبارہاتھا۔ میں نے کہا۔" بابا!
وہ ہندومسلم جھگڑا آپ کی دعا سے طے ہوگیا۔"
کہا ۔"اچھاہوا۔"
پھرمیں نے سوال کیا کہ بابا، انگریز اس ملک
سے کب تک جائیں گے؟"
باباؒ نے خفا ہوکر جواب دیا۔"ارے میاں،
جب تم لوگ اس قابل ہوگے تو خود چلے جائیں گے۔"
میں ذرا سہم گیا۔باباؒ نے رٹ لگائی ۔ "گھر
جاؤ۔"
میں کچھ دیر بیٹھنا چاہتاتھا لیکن باباؒ یہی
کہہ رہے تھے کہ گھر جاؤ گھر جاؤ۔ میں مجبور ہوکر اٹھ آیا۔ میرے ہمراہ دو صاحب تھے۔ان
میں سے ایک صاحب نے مجھ سے کہا۔ "دیکھے! میں آپ کو ہر چند یہاں آنے سے منع کرتا
رہا مگر آپ نہ مانے۔ یہ ایک مجنون آدمی ہے۔ اس کو فقیر بنا رکھاہے اور بداخلاق کس قدر
ہے کہ آپ کو بیٹھنے بھی نہ دیا۔ اوراپنے پاس سے بے احتنائی کے ساتھ اٹھا دیا۔"
دوسرے صاحب نے کہا۔" نہیں ، باباصاحبؒ
کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنے گھر یعنی مکہ مدینہ چلے جائیں اورپھر یہاں فاتح کی حیثیت
سے آئیں۔"
مجھے ان کے اس استدلال پر ہنسی آگئی۔ بہر حال
میں اسی دن شب میں الٰہ آباد کے لئے روانہ ہو گیا۔ دوسرے دن آنند بھون (پنڈت جواہر
لال نہرو کا گھر)پہنچا جہاں میں ٹھہر ا کر تاتھا۔ وہاں میرے لئے ایک تار پہلے سے آیا
ہواتھاکہ جونپور میں میرے ماموں زاد بہنوئی کا اسی وقت انتقال ہوا جس وقت کا باباؒ
سے ناگپور میں باتیں کر رہا تھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"