Topics
ماہِ ذیقعد ۱۳۴۳ ھ میں بابا معمول کے مطابق گھومنے نکلے اورڈگوری
کے پل پر بیٹھ گئے۔ حاضرین بھی آپ کے قریب بیٹھ گئے اوراپنی اپنی مشکلات بیان کرنے
لگے۔ باباصاحب حضرت فرید الدین تاجی سے مخاطب ہوئے۔
تاج العارفین ، سراج السالکین، تاج الملوک، جانتے ہو یہ کون ہے؟
فرید صاحب نے جواب دیا۔" آپ کے سواکون ہوسکتاہے۔"
باباصاحب نے فرمایا۔"ہوبابو۔ اب اس کے بعد چاند نہ دکھے گا۔"
ایک لمحہ توقف کے بعد بابا صاحب نے پوچھا۔"
عید کا چاند دیکھا گیا؟"
عرض کیا گیا۔"رمضان کی عید ہوچکی۔ اب عید الضحیٰ کاچاند دکھے گا۔"
اسی ماہ باباصاحب کی طبیعت قدرے خراب ہوئی جس کی وجہ سے آپ باہر تشریف نہیں
لائے۔ ایک دن صبح باباصاحب نے شکردرہ کا وہ گھنٹہ کھولا جو مہاراجہ رگھو جی کے پہرے
دار بجایا کرتے تھے۔ اورکہا۔
" یہ گھنٹہ تاج آباد میں بجے گا۔"
تاج آباد اس زمانے میں ایک غیر آباد اورویران جگہ تھی جو امریڈ روڈ پر واقع
تھی۔ اس جگہ چند جھونپڑے اور پھونس کی ایک مسجد تھی۔ حضرت فرید الدین صاحب کی ایما
پر اس زمین کا نام تاج آباد تجویز ہواتھا۔
شکردرہ سے باباصاحب تاج آباد پہنچے۔ اورپھونس کی مسجد میں بیٹھ گئے۔ کھانا
طلب کیا اور کچھ کھا کر وہاں سے بیرپیٹھ کی طرف روانہ ہوئے۔ چلتے چلتے ایک میدان میں
بیٹھ گئے۔ مٹھی بھر مٹی اٹھائی سونگھا اور فرمایا۔
"حضرت ! یہ مٹی بہت اچھی ہے۔ ہمارے لئے یہاں بنگلہ بنادیجئے تورہیں گے۔"پھر
فوراً ہی فرمایا۔
"نکو رے چپ، چھونپڑا رہا تو بس۔"
باباصاحب کی طبیعت گاہے بہ گاہے خراب رہنے لگی۔ آپ کا معمول تھا کہ عیدین
کوشہر کی طرف ضرور جاتے تھے۔ خدّام باباصاحب کو قیمتی جبّہ پہناتے اور آپ عمامہ باندھتے۔
اس کے بعد آپ تانگے پر سوار ہوکر ناگپور کی گلی گلی اورسڑکوں پر گھومنے اور لوگوں کو
دیدار سے مشرف کرتے۔ اس طرح لوگوں سے ملاقات کرتے تھے۔ بابا صاحب کی
سواری کو دیکھ کر لوگ دوڑے ہوئے آتے اور سلام عرض کرتے۔مشتاقان دید کی پیاس نہ بجھتی
توتانگے کے ساتھ دوڑتے جاتے۔ بابا صاحب اپنے مخصوص لہجے میں لوگوں سے گفتگو کرتے رہتے۔
اس دفعہ بقرہ عید کا چاند ہوالیکن روایت کے خلاف باباصاحب نے لوگوں کی بہت
کوشش اورعرض کے باوجود نہ نیا کپڑا پہنا اورنہ شہر کی جانب گئے۔ نہ صرف عیدالضحیٰ کے
دن بلکہ اس کے بعد پورے مہینے باباصاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں رہی ۔ آپ کبھی باہر جاتے
اور کبھی نہیں۔
محرم ۱۳۴۴ ھ آگیا۔ باباصاحب کا معمول تھا کہ محرم کی دس تاریخ کو سبز جبّہ زیب تن
کر کے شکردرہ سے باہر ایک میدان میں تشریف لے جاتے جو میدانِ کربلا کہلاتا تھا۔ میدانِ
کربلا کی یہ حاضری نہایت شان اور دبدبے کی ہوتی تھی۔ سب سے آگے مہاراجہ رگھوجی راؤ
ہاتھی پر سوار ہوتے۔ اوران کے آگے پیچھے سپاہی ہاتھ میں نیزے لئے ساتھ چلتے۔ مہاراجہ
کی سواری کے پیچھے حضور بابا صاحب کی بگھی ہوتی تھی جس
کے ساتھ دونشان بردار چلتے تھے۔ باباصاحب کی سواری کے ساتھ ان کے بچوں، میں سے جناب
محمد حسین صاحب، خواجہ علی امیرالدین صاحب اور جناب خواجہ قادرمحی الدین صاحب کی سواریاں
ہوتی تھیں۔ باباصاحب کی بگھی کے اطراف عقیدت مندوں اور ان سے روحانی تعلق رکھنے والے
حضرات کا ہجوم ہوتاتھا۔ یہ جلوس میدانِ کربلا گھوم کر واپس ہوجاتاتھا۔
دس محرم الحرام ۱۳۴۴ ھ کو روایت کے مطابق باباصاحب جلوس کے ساتھ
میدانِ کربلا کی طرف چلے۔ شکردرہ سے نکل کر کچھ دور پہنچے تو آپ نے وزیر نامی نشان
بردار کے ہاتھ سے نشان لے کر خود اٹھا لیا اور یہ شعر آپ کی زبان پر جاری ہوگئے۔
امامِ دیں سلطانِ مدینہ شاہوں کے سردارحسینؓ
دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس وقت باباصاحب
کی عجیب شان تھی۔ آپ کے اندرحضرت علیؓ، حضرت عباسؓ اورحضرت حسینؓ کا عکس نظر آرہاتھا۔
باباصاحب کی نسبتِ حسینی کو دیکھ کر لوگ بے اختیار قدم بوسی کر رہے تھے۔ ہزاروں افراد
کا مجمع ساتھ تھا۔ اورلوگ دیکھ رہے تھے کہ باباصاحب کا دریائے عطا جوش میں ہے، جو جاتا
ہے اسے عطا کا مژدہ سناتے ہیں۔
محرم کی ۱۶؍ تاریخ کو بابا صاحب قدرے
بخار میں مبتلا ہوئے۔ مہاراجہ رگھوجی اور دیگر جاں نثار متفکر ہوگئے۔ کیونکہ ادھر دوماہ
سے باباصاحب نے کچھ تشویشناک اشار ے دینے شروع کریئے تھے۔ مہاراجہ نے کئی ڈاکٹر باباصاحب
کی خدمت میں مقرر کر دیئے اور باباصاحب کے عقیدتمند حکیم ظفر حسین صاحب بھی ہمہ وقت
بابا صاحب کے
پاس موجود رہنے لگے۔ باباصاحب کے معتقد ڈاکٹر چولکر صاحب بھی آئے۔ انہوں نے باباصاحب
کو دیکھا اور کہا کہ مجھے کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کا علاج کیا جائے۔ تمام کوششوں
کے باوجود باباصاحب کی طبیعت روز بروز گرتی گئی۔
باباصاحب کی طبیعت کا رجحان اورطرزِ عمل دیکھ کر مہاراجہ رگھوجی نے ارادہ
کیا کہ تمام لوگوں کو باباصاحب سے ملنے کے لئے بلالیں۔ باباصاحب نے بھی مہاراجہ کو
حکم دیا کہ عام اعلان کر دیا جائے کہ ہر شخص ملاقات کے لئے آسکتاہے۔
۲۶؍محرم کا سورج طلوع ہوا۔
آج جاں نثاروں اور خادموں کو باباصاحب کے اندازواطوار بد لے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔
اور یہ تبدیلی ان کے لئے اضطراب کا باعث بنتی جا رہی تھی۔ اسی اضطراب وتشویش کے عالم
میں دن ڈھل گیا اورمغرب کاوقت قریب آگیا۔ باباصاحب پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ چاروں طرف
لوگ موجود تھے۔ سب کی بے چین اور بے قرار نظریں باباصاحب کے چہرے پر لگی ہوئی تھیں۔
یکایک باباصاحب پلنگ سے اٹھے اور حاضرین پر مشفقانہ نظر ڈالے۔ پریشان اوردل گرفتہ جاں
نثاروں کو تسلی آمیز کلمات سے مخاطب کیا اور ہاتھ اٹھا کر سب کے لئے دعا کی۔ آپ کی
اندازِ تخاطب بدلاہواتھا۔
دعااور کلماتِ تسلی وتشفی کے بعد بابا صاحب پلنگ پر لیٹ
گئے اورایک بلند آویز گہری سانس کے ساتھ ہی آپ کی روح پر فتوح نے جسم خاکی سے رشتہ
منقطع کر لیا۔
اِنَّاﷲِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُون
یومِ وصال پیر تھا۔ تاریخ ۲۶؍محرم الحرام ۱۳۴۴ ھ ، بمطابق ۱۷؍اگست ۱۹۲۵ ء تھی۔
یہ حادثہ حاضرین کے دل پر بجلی بن کے گرا۔ ان کے دل کی دنیا زیروزبر ہوگئی۔
آنکھیں بے اختیار آنسو برسانے لگیں۔ باپ سے زیادہ مشفق اورماں سے زیادہ مہربان ہستی
کی جدائی ان کے لئے قیامت سے کم نہ تھی۔
باباصاحب کے وصال کی خبر محل سے نکل کر شکر درہ میں پہنچی اورجنگل کی آگ کی
طرح سی پی اور برار میں پھیل گئی۔ پورا ناگپور ماتم کدہ بن گیا۔ ہرمذہب اورملت کے لوگ
جوق در جوق اپنے بابا کے آخری دیدار کے لئے آنے لگے۔ چوبیس گھنٹے تک لوگ زیارت کرتے
رہے لیکن پھر بھی لوگوں کا ہجوم کم نہ ہوا۔ لوگ پروانہ وار جنازے کا طواف کر رہے تھے
اور یوں رورہے تھے جیسے ان کے ماتھوں پر یتیمی کا داغ لگ گیاہو۔
مدفن کے لئے وہی مقام منتخب کیا گیا جس کی مٹی زمانۂ حیات میں باباصاحب نے
سونگھی تھی۔ جنازۂ مبارک کو تمام شہر میں گھمایا گیا۔ مہاراجہ کے محل سے سرس پیٹھ،
جمعہ دروازہ، گانجہ کھیت، اتواراہوتاہواجنازہ تاج آباد لایاگیا۔ تقریباً تیس ہزار افراد
پروانہ وار جنازے کے ساتھ تھے۔ نمازِ جنازہ مولوی محمد علی صاحب نے پڑھائی جو امراؤتی
میں مدرس تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے باباصاحب کو جنازے کے باہر کھڑے دیکھا۔
ہندوستان کے اخبارات نے باباصاحب کے وصال کی خبر کو جلی حرفوں سے شائع کیا
اور تبصرے لکھے۔
بجنور کے اخبار "مدینہ "نے ۱۳؍ دسمبر ۱۹۲۵ ء کو حضور باباصاحبؒ
کی وفات پراس طرح اظہارِ خیال کیا۔
"حضور کی زندگی میں لوگ دور دور سے آپ کی زیارت کیلئے آتے تھے۔ جو شخص
حاجت مندآتا، حضورؒ حق تعالیٰ سے اس کی مشکل کشائی اورحاجت روائی کی دُعا فرماتے۔کثرت سے عقیدت مند اور مریض ، کوڑھی
، اپاہج، آسیب زدہ اوردیگر قسم کے حاجت مند آپ کی امداد کے خواہاں دربار میں پڑے رہتے
تھے۔ ہر آدمی آپ کے وجود سے فیض باطنی وظاہری حاصل کرتا۔ ہر وقت لنگر خانہ جاری رہتاتھا۔
صدہا غریب ومسکین، یتیم ویسیر کی پرورش کا سامان دربار میں موجود تھا۔"
آندھرا پتر یکانے ۲۲؍اگست ۱۹۲۵ ء کو لکھا۔
" رام ایک جنم میں آکر چلا گیا اور اب تاج الدین باباکے جنم میں آیا
تھا جو ۱۷؍اگست ۱۹۲۵ ء کو اس دنیا سے چلا گیا۔ اوردنیا نے افسوس
کہ پہچانا نہیں۔"
حضرت باباصاحبؒ ایک صاحبِ اختیار ولی تھے۔ ان کی کرامات اورفیوض و برکات ان
کے پروہ فرمانے کے بعد بھی جاری وساری ہیں۔ چنانچہ ٹائمز آف انڈیا اپنی ایک اشاعت میں
رقم طراز ہے:
"ناگپور سے ایک عجیب واقعے کی خبر آئی ہے۔ بیان کیا جاتاہے کہ ایک شخص
جو کچھ عرصہ قبل موٹر کے حادثے میں لنگڑا ہوگیا تھا اور ناگپور ریلوے اسٹیشن کے قریب
بھیک مانگ کر اپنا پیٹ بھرتا تھاوہ صرف ایک رات میں صحت یاب ہوگیا۔ اس شخص نے ہمارے
نامہ نگار کو بتایا کہ اس نے گزشتہ ماہ ناگپور کے ایک مسلمان بزرگ کے مزار پر حاضری
دی اور اپنی صحت یابی کے لئے دعائیں مانگیں۔
لیکن کئی ہفتے کی مدت گزر جانے کے بعد بھی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس کے بعد اس شخص نے
بددلی اور مایوسی کے ساتھ حضرت باباصاحبؒ پر شد ت سے لعن طعن کیا۔ رات کو اس شخص نے
خواب میں دیکھا کہ حضرت باباصاحبؒ سفید عمامہ پہنے ہوئے تشریف لائے اورا س لنگڑے کو
حکم دیا کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔ کئی مرتبہ کہنے کے بعد بھی وہ کھڑا نہ ہوا تو حضرت
نے اسے کچھ مٹھائی کھلائی اور شربت پلایا۔پھر ایک ٹھوکر مار کر حکم دیا کہ وہ کھڑا
ہوجائے۔ لنگڑا آن کی آن میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
ہمارے نامہ نگارکا بیان ہے کہ ناگپور میں متعدد اشخاص موجود ہیں جو اس واقعے
کی تصدیق کرتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ شخص مذکور اپنے لنگ کی وجہ سے اس ہفتے تک زمین پر
رینگتاپھرتا ہے۔
ہر سال باباتاج الدینؒ کا عرس ۲۶؍محرم سے شروع ہوکر ۲۹؍محرم تک جاری رہتاہے۔ ناگپور کے علاوہ بہت سے دوسرے
مقامات پھر بھی آپ کا عرس منایا جاتاہے۔ ناگپور میں آج بھی صندل شریف ان ہی راستوں
سے گزرکرتاج آباد لایاجاتاہے جن سے بابا کا جنازہ لے جایا گیا تھا۔ عرس میں ہزار ہا
عقیدت منداور زائرین بلا تفریقِ مذہب وملت شریک ہوتے ہیں۔
تا ج آباد جانےسے پہلے زائرین شکردرہ حاضرہوتے ہیں جہاں بابا صاحبؒ کی چلّہ
گاہ مشہورہے۔ شکردرہ میں حاضری کی وجہ سے باباصاحب کاوہاں سے گہرا تعلق اور ان کا مہاراجہ
رگھوجی راؤ سے یہ فرمان ہے کہ میرا بستر تیرے گھر سے لاکھوں برس نہیں اٹھ سکتا۔
۲۶؍محرم کی شام شکردرہ
میں بھی عرس منایا جاتاہے۔ یہاں سے صندل شریف نکل کر راجہ صاحب کے محل میں جاتا ہے
اور پھر واپس شکردرہ کی چلّہ گاہ میں لے جایا جاتاہے۔
قاضی امین الدین جو مہاراجہ رگھوجی کے ہاں ملازمت کرتے تھے، بیان کرتے ہیں
کہ باباصاحب کے وصال کے دسویں روز تاج آباد گیا اور مزار سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر
باباصاحبؒ سے کہا۔"آپ شکردرہ سے تاج آباد آگئے۔ اس لئے بہت سے لوگ یہاں آکر رہنے
لگے ہیں۔ میں آپ کے حکم سے مہاراجہ کے ہاں ملازم ہواتھا۔ اگراجازت دیں تو میں بھی تاج
آباد آجاؤں۔"
ابھی میں عرض پیش کر رہاتھا کہ حضرت اﷲکریم (باباصاحب کے فیض یافتہ ) میرے
پاس آئے اورفرمایا۔"تجھے بنگلے میں رہ کر راجہ کو سلام کرنے کا حکم ہے۔ لال بنگلے
سے ابھی اﷲکا پیارا اٹھا نہیں ہے۔"
(لال بنگلے سے مراد شکردرہ کا وہ محل ہے جہاں باباصاحب کا قیام تھا)۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"