Topics

میڈیکل سر ٹیفکیٹ

 سید عبدا لوہاب نے بیان کیا۔ ۰ا؍ دسمبر ۱۹۰۷ ؁ء کاذکر ہے۔ میں نےپوسٹ آڈٹ آفس، ناگپور میں ملازمت کی درخواست دی اوراسی روز شام مجھے ہدایت کی گئی کہ میں میڈیکل آفیسر کا سر ٹیفکیٹ پیش کروں کہ میں طبی لحاظ سے کام کرنے کے لائق ہوں۔ میں میڈیکل آفیسر کے پاس جانے سے ہچکچایا۔ کیوں کہ ان دنوں میں خارش کے مرض میں مبتلاتھا ۔ اور میرے جسم پر پھوڑے نکل آئے تھے۔ قوی امید تھی کہ ڈاکٹر مجھے نوکری کا اہل قرار نہیں دے گا۔ میں پریشان ہوکر گھر گیا اور سوچنے لگا کہ کیاکرناچاہئے۔ خیال آیا کہ جناب عبدالحفیظ صاحب سے مشورہ کرناچاہئے جو مجھ پر مہربان اورکرم فرماتھے۔ اورناگپور کی کچہری کے نقشہ نویس کے معتمد تھے ۔ میں نے ان کے پاس جاکر  صورتحال بیان کی انہوں نے جواب دیا۔ گھبراؤ نہیں ۔تم بابا تاج الدین کے پاس نہایت ادب اور عجز سے درخواست پیش کرو۔ مجھے یقین ہے کہ بابا صاحب    ا سکا حل نکال دیں گے۔ میں اورمیرے پھوپھی زاد بھائی جود یلور میں صفائی انسپکٹر تھے۔ پاگل خانے پہنچے ۔ ہم دونوں نے پھاٹک سے اندر داخل ہوکر چوکیدار سے باباصاحب کا پتہ پوچھا۔ دوچوکیدار ہم کو باباصاحبؒ کے پاس لے گیا۔ باباصاحبؒ ایک درخت کے نیچے تشریف فرماتھے اور سینکڑوں لوگ آپ کے گرد جمع تھے۔ چوکیدار نے ہمیں مشورہ دیا کہ آپ لوگ ان الفاظ میں باباصاحب کو سلا م کریں۔ "السلام علیک بھائی صاحب۔" ہم نے ان ہی الفاظ میں بابا صاحب  کو سلام کیا۔ باباصاحب نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔"آؤ مدراسی بھائی۔میرا وطن بھی مدراس ہے۔ دفتر لے کر آئے ہیں، دفتر لیکر جائیں گے۔" باباصاحب کے اس طرز تخاطب سے سارا مجمع ہماری طرف متوجہ ہوگیا۔

اورہمیں باباتک جانے کا راستہ دے دیا۔ میں جوں ہی باباصاحب کے قریب پہنچا۔باباصاحب نے حکم دیا۔"پیردباؤ۔" پیر دباتے ہوئے تھوڑی دیر گزری تھی کہ باباصاحب بالکل بے حس وحرکت ہوگئے۔ نبض ساکت ہوگئی، سانس رک گئی اور جسم سرد پڑگیا۔ یہ حالت دیکھ کر میں گھراگیا۔ کبھی بابا صاحب  کے دل پر ہاتھ رکھ کر دھڑکن کا احساس کرتا۔ کبھی نبض پر ہاتھ رکھ کر نبض کی حرکت کا معائنہ کرتا۔ لیکن زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے۔ میں نے سوچا کہ لوگوں کو اطلاع دے دوں کہ بابا صاحب  نے اس دنیا سے پردہ فرمالیا۔ دس پندرہ منٹ اسی حالت میں گز ر گئے۔ میں نے لوگوں سے یہ بات کہنے کے لئے لب کھولے تھے کہ باباصاحب نے یا ہو کہہ کر آنکھ کھول دی اور اٹھ بیٹھے۔ کچھ فرمایا جسے میں سمجھ نہیں سکا۔ بعد ازاں مجھ سے مخاطب ہوکر کہا۔" جاکر آؤحضرت! وہ انگریز کیا کرے گا۔"

ان الفاظ کے ساتھ ہی چوکیدار نے ہم سے کہا کہ آپ جس کام کیلئے آئے تھے وہ ہوگیا ہے۔ اب آپ لوگ جا سکتے ہیں۔ ہم سلام کے بعد رخصت ہوئے۔

دوسرے دن میں میڈیکل آفیسر کے پاس گیا تاکہ سر ٹیفکیٹ حاصل کروں۔ وہاں میرے علاوہ ۳۵؍ آدمی موجود تھے جو سر ٹیفکیٹ کے لئے آئے تھے۔ میرانمبر سب سے آخری تھا۔ ڈاکٹر صاحب آئے اورباری باری لوگوں کا معائنہ شروع کیا۔ ابھی میرا نمبر آیا ہی چاہتاتھا کہ لیڈی چیف کمشنر نے ڈاکٹر صاحب کو بلوایا اوروہ چلے گئے۔ وہاں سے واپس آکر ڈاکٹر صاحب نے اپنے اسسٹنٹ سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص باقی ہے۔ تو اس نے کہا نہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا تمام لوگوں کے سر ٹیفکیٹ تیار رکھو، میں آکر دستخط کردوں گا۔ یہ سن کر میں فکر مند ہوا کہ میرا طبی معائنہ تو ہوانہیں ، پھر سر ٹیفکیٹ پر کیوں کر دستخط ہوں گے۔ بہر حال میں چار بجے آفس گیا تو سر ٹیفکیٹ ڈاکٹر نے دے دیا۔ حالانکہ میرا معائنہ ہوا نہیں تھا اور اگر ہو جاتاتو میرے پاس ہوجانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے جب بھی موقع ملتا، باباصاحب کی قدم بوسی کے لئے جاتاتھا۔

 

Topics


Tazkirah Baba Tajuddeen Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

عارف باﷲخاتون

مریم اماں

کے نام

جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ؒ

کا ارشاد ہے:

"میرے پاس آنے سے پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"