Topics
اجمیر شریف
میں ایک صاحب جذب ومستی کے عالم میں دکھائی دیتے تھے۔ کھانے پینے کی طرف کوئی خاص توجہ
نہیں تھی۔ لوگ انہیں چائے پلاتے مگر بہت تھوڑی سی مقدار حلق میں جاتی تھی۔ باقی گر
جاتی تھی۔ ان صاحب کو باباتاج الدینؒ کی ذات بابرکات سے فیض ہواتھا۔ انہوں نے لندن
جاکر بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی اور وہاں سے بمبئی آکر پریکٹس کا ارادہ کیا۔ آفس کے
لئے فرنیچر اوردیگر ضروری سامان کی خریداری کے لئے بازار گئے اورخریداری کرنے کے بعد
باربرداری کا انتظام کرنے لگے۔ اس دوران سامنے عمارت کی کھڑکی کھلی اور ایک رخ زیبا
پر نظر پڑی۔ نہ جانے کیا دیکھا مبہوت ہوکر رہ گئے۔ کھڑکی بندہوجانے کے بعد بھی ان کی
نگاہیں اسی طرف مرکوز رہیں۔
صبح سے دوپہر کا وقت ہوا اور پھر شام قریب آنے
لگی لیکن وہ بے خودی اوروارفتگی کے عالم میں دیدارِ محبوب کی تمنا کے ساتھ وہیں کھڑے
رہے۔ شام کے وقت اسی عمارت سے ایک جنازہ باہر نکلا۔ ان کو کسی ذریعے سے معلوم ہوا کہ
ان کی دنیا لٹ چکی ہے۔ اب وہ اپنے محبوب کے حسین سراپا کو کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔
جنازے کے ساتھ ساتھ وہ بھی چلتے رہے اور قبرستان
پہنچ گئے۔ جب سب لوگ لاش کو سپردِ خاک کر کے واپس چلے گئے تو وہ بے تاب ہوکر قبر سے
لپٹ گئے اور زاروقطار رونے لگے۔ آنسوؤں کی جھڑی کسی طرح رکنے کا نام نہیں لیتی تھی۔
روتے روتے سورج غروب ہوگیا اور اندھیرا چھا گیا۔ اسی حالت میں دیکھا کہ ایک بزرگ کھڑے
فرمارہے ہیں۔"ناگپور آکر ہم سے ملو، ہم تاج الدین ہیں۔"
بزرگ کا لہجہ اس قدر پر تاثر تھا کہ محبوب
کے مزار کا طواف کرنے کا ارادہ ناگپور جانے کی شدید خواہش میں بدل گیا۔
ناگپور پہنچے تو باباصاحبؒ شکردرہ محل کے چبوترے
پر رونق افروز تھے۔انہوں نے باباصاحبؒ کی طرف دیکھاتو نظر آیا کہ باباصاحبؒ کی جگہ
ان کا محبوب بصد ناز وادا مسند نشیں ہے۔ وہ اس جلوے کی تاب نہ لاکر عالمِ سرمستی میں
دوڑے اور محبوب کے قدموں میں جا پڑے۔ لمحے بھرمیں باباصاحبؒ کی نگاہِ فیض سے کتنے ہی
اسرار ورموز ان پر منکشف ہوگئے۔ ہوش آیا تو باباصاحبؒ نے فرمایا۔
"جاؤ! اجمیر شریف کی خدمت تمہارے سپرد ہے۔
ہر جگہ ہمیں دیکھتے رہو۔اچھے رہوگے۔"
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"