Topics
آپ کانام محمد عظیم ، تخلص برخیااورلقب قلندر
بابا اولیاء ہے۔ قلندر بابارشتہ میں باباتاج الدینؒ ناگپور کے نواسے ہیں۔ قلندر بابااولیاء
۱۸۸۹ ء میں قصبہ خورجہ ضلع بلند شہر یوپی (بھارت
)میں پیداہوئے۔ قرآنِ پاک اورابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں حاصل کی۔ ہائی اسکول تک
بلند شہر میں پڑھا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انٹرمیں داخلہ لے لیا۔ علی گڑھ کے
قیام کے دوران آپ کی طبیعت میں درویشی کی طرف میلان پیداہوگیا۔ اسی اثنا میں قلندر
بابا اپنے نانا باباتاج الدینؒ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ نانا نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔
قلندر باباکے والد کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ ناگپورگئے اور باباتاج الدینؒ سے
عرض کیا ۔اسے علی گڑھ واپس بھیج دیجئے۔ اس کی تعلیم نامکمل رہ جائے گی۔
استادوں کے استاد واقفِ اسرارورموز ، حاملِ
علمِ لدنی، باباتاج الدینؒ نے فرمایا کہ "اگر اس سے زیادہ اسے پڑھایا گیا، جتنا
یہ اب تک پڑھ چکاہے تو یہ میرے کام کا نہیں رہے گا۔ "
قلندر بابا کے والد نے ایک مشفق باپ کی طرح
بیٹے کو سمجھایا۔اور جب دیکھا کہ بیٹے کا میلان فقر کی طرف ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر
"بیٹے تم خود سمجھ دارہو۔ جس طرح چاہو اپنا مستقبل تعمیرکرو۔انہیں ان کے حال پر
چھوڑدو۔"
قلندر بابااولیاء بابا تاج الدینؒ کے پاس نو
سال مقیم رہے۔ باباتاج الدینؒ نے نو سال تک ان کی روحانی تربیت فرمائی۔ تربیت کے زمانے
میں ہونے والے بیشمار واقعات میں سے چند واقعات کا تذکرہ اورعلمی توجیح قلندر بابانے
کتاب "تذکرۂ تاج الدینؒ "میں کی ہے۔ تربیت کے زمانے میں قلند ربابا کی والدہ
سعیدہ بی بی چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کو چھوڑکر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ قلندر بابا
اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی تربیت اورنگہداشت پر کمربستہ ہوگئے اور بچیوں کی تربیت کے
سلسلے میں دقت پیش آئی تو بابا تاج الدینؒ کے ارشاد کے مطابق ان کے ایک عقیدت مند کی
صاحب زادی سے دہلی میں آپ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد قلندر بابا دہلی میں قیام پذیرہوگئے۔
سلسلۂ معاش قائم رکھنے کے لئے مختلف رسائل اور جرائد کی صحافت اور شعراء کے دیوانوں
کی اصلاح اورترتیب کا کام اپنے لئے منتخب کیا۔
تقسیمِ ہند کے بعد قلند بابا اپنے والد بہن بھائیوں اور اہل وعیال کے ساتھ کراچی آگئے۔ اور لی مارکیٹ میں ایک خستہ حال مکان کرائے پر لیا۔ کچھ عرصہ بعد کمشنر بحالیات خاں بہادر عبداللطیف نے جو بابا تاج الدینؒ کے عقیدتمند تھے قلندر باباسے کہا کہ ایک درخواست لکھ دیجئے تاکہ آپ کے لئے کوئی اچھا سا مکان الاٹ کر دیا جائے۔ قلندر بابا نے اس درخواست پر توجہ نہ دی۔ اور اسی مکان میں رہتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد آپ اردو ڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائزہوئے اس کے بعد ایک عرصہ تک رسالہ نقاد میں کام کرتے رہے۔ کچھ رسالوں کے ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ اورکئی مشہور کہانیوں کے سلسلے بھی قلم بند کئے۔
۱۹۵۶ ء میں سلسلۂ سہروردیہ کے بزرگ ، قطب ارشاد حضرت ابوالفیض
قلندر علی سہروردی کراچی تشریف لائے۔ قلندر بابا ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت
ہونے کی درخواست کی ۔ حضرت ابوالفیض نے رات کو تین بجے آنے کو کہا۔ سخت سردی کے عالم
میں قلندر بابا گرانڈہوٹل ہیکلوڈروڈ کی سیڑھیوں پر رات کے دو بجے جاکر بیٹھ گئے ۔ ٹھیک
تین بجے سہروردی بزرگ باہر آئے اور ساتھ لے کر کمرے میں اندر پہنچے ۔ سامنے بٹھاکر پیشانی پرتین پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک میں عالمِ ارواح منکشف ہوگیا۔ دوسری پھونک میں عالمِ
ملکوت و جبروت سامنے آگیا اور تیسری پھونک میں قلندر بابا اولیاء نے عرشِ معلی کا مشاہد
ہ کیا۔
حضرت ابو الفیض سہروردی نے تین ہفتہ میں قطب ارشاد کی تعلیمات دے کر خلافت عطا کر دی۔ اس کے بعد شیخ نجم الدین کبریٰ کی روح پرفتوح
نے قلندر بابا کی روحانی تعلیم شروع کی اور پھر یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدنا حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہِ راست علمِ لدنی عطا کی۔ فرمایا اور حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی ہمت اور نسبت کے ساتھ بارگاہِ رب العزت میں پیشی ہوئی۔ اور اسرارورموز کا
علم حاصل ہوا۔ اس زمانے میں قلند ر بابا اولیاء نے مسلسل دس رات اور دس دن شبِ داری
کی اور تہجد کی نوافل میں کئی کئی سو مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"