Topics

سرکشن پرشاد کی حاضری

 مہاراجہ سرکشن پرشاد حیدرآباد دکن کے طبقۂامرا ء سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک عرصہ تک حیدرآباد دکن کے وزیر اعظم بھی رہے۔ مہاراجہ شیروسخن کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی خاصہ درک رکھتے تھے۔ مہاراجہ کے سفر نامے اردو زبان کے معیاری سفرناموں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سرکشن پرشاد کے مطبوعہ سفر ناموں میں " سیر ناگپور" نامی ایک مختصر سفرنامہ ہے۔ اس سفر نامہ میں باباتاج الدین ؒ ناگپوری کا تذکرہ مرکزی حیثیت رکھتاہے۔ ذیل میں ہم اسی سفر نامے کے اہم مندرجات پیش کر رہے ہیں۔

تین مہینے ہوئے میرے عزیز باتمیز سید معین الدین خان نبیرۂسردار عبدالحق ، دلیرا لملک مرحوم نے مجھ سے برِ سبیل تذکرہ کہا تھا کہ ناگپور کے پرے واکی اسٹیشن کے قریب ایک بزرگ تا ج الدین شاہ ولی کے نام سے مشہور ہیں۔ نہایت کامل اور مستجابات الدعواۃ ہیں۔ ان کی رطب اللسانی کا تخم میرے دل میں بویا گیا اور شوق وذوق دید و درشن کی آبیاری سے اس کی پرورش شروع ہوئی۔ کمسنی سے مجھے بزرگوں کے ساتھ بلا قید ملت و مذہب کی ایک خاص قسم کی عقیدت ہے۔یہ سمجھنا چاہئے کہ میری گھٹی میں عقیدت کا پٹ پڑاہے۔ اگر چہ انہیں دنوں میں طائرِ ارادہ کو تحریک ہوئی کہ چل کر درشن کر لوں لیکن کُلُّ اَمْرٍمَرْحُوْنٌبِاَوْقَاتِھَاکے سبب پر پروار شکستہ تھے۔ اس لئے یہ بات اور ارادہ رفت و گزشت ہو گیا ۔ دنیا عالم اسباب ہے ۔کسی سبب کا پیدا ہونا ضروری تھا۔ جس نتیجہ یہ ہو ا کہ میرا تیسرا لڑکا عثمان پرشاد عدمؔ بروزِ دندان کے باعث علیل ہوگیا۔ اس میں طوالت پیداہوئی اور بخار لازمی ہوگیا۔ ۱۰۰ ؍اور ۱۰۲ ؍کے درمیان اس کا اتار چڑھاؤ ہوتاتھا۔

ماہر ڈاکٹروں اور نامی گرامی اطباء کا علاج ہوتارہا۔ لیکن بچہ کی طبیعت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔لوگوں کے مشورے پر سرکشن پرشاد بچے ، اس کی والدہ اور بہن کو ساتھ لے کر وقارآباد چلے گئے۔ تاکہ تبدیلِ آب و ہوا سے بچہ کے طبیعت پر خوشگوار اثر پڑے۔ وقارآباد کا فاصلہ حیدرآباد سے بذریعۂریل دوگھنٹہ کا تھا۔ اس دوران مہاراجہ کی لڑکی کی شادی بھی تھی۔ وقار آبادمیں بھی بچے کی طبیعت میں افاقہ نہیں بلکہ بگڑگئی۔ شادی کی مجبوری سے مہاراجہ حیدرآباد واپس آئے۔ اور۷؍جمادی الآخر کو منگنی کی رسم ادا کی۔ اسی رات دو بجے بچے کی طبیعت مزید خراب ہوئی اور دوسری صبح بہت بگڑگئی۔ مہاراجہ سخت پریشان ہو گئے۔ وہ لکھتے ہیں

"طبیعت نے گوارہ نہ کیا کہ اپنے پیارے کی حالت یہاں رہ کر دیکھوں ، فوراًریل پہ سیلون کا انتظام کر کے میں نے اپنے والدِ ماجد کو لکھ دیا کہ فی الحال شادی ملتوی کر دی جائے۔ ہفتہ عشرہ کے لئے میں بغرضِ تبدیلِ آب وہواجاتاہوں۔ ورنہ میری صحت پر برااثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ ۸؍تاریخ، روزِ پنجشنبہ ، وقتِ مغرب سب کو خدا حافظ کہہ کر گھر سے بحالتِ استرارروانہ ہوا۔ اس برخوردار کی والدہ سے کہہ دیا کہ خدا ہرنظر پر رکھ کر دعا کرتی رہیں۔ ان شاء اﷲجب بخار میں کمی محسوس ہوگی۔ اس وقت واپس ہوؤں گا"۔

چلتے وقت بعض احباب نے مشورہ دیا کہ جب سفر پر روانہ ہو ہی رہے ہیں تو بہتر ہے کہ ناگپورکی طرف جاکر حضرت تاج الدین ؒ بابا کے بھی درشن کر لیں۔ یہ بات مہاراجہ کے دل کو لگی اور وہ ناگپورکی سمت روانہ ہوئے۔

ناگپورپہنچ کر راجہ صاحب کو پتہ چلا کہ بابا تاج الدینؒ راجہ رگھوجی کے مکان میں رہتے ہیں۔ راجہ صاحب نے بغیر تعرف اور اجازت کے وہاں جانا مناسب نہیں سمجھابلکہ اپنے منصب دار مرزا احمد بیگ کو باباصاحب کی خدمت میں سلام پہنچانے کا حکم دیا۔ مرزا احمد بیگ اس وقت باباصاحب کی خدمت میں پہنچے، باباصاحب لیٹے ہوئے تھے۔ موقع مناسب دیکھ کر مرزااحمد نے مہاراجہ کا سلام پہنچایا ۔ باباصاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔

"چراغ رکھ کر چراغ کی فکر کرتاہے، کہہ دے گھر کو چلا جائے۔"

مہاراجہ کشن پرشاد کو جب یہ جواب سنایاگیاتو انہوں نے اسے اپنے لئے ایک خوش خبری سمجھالیکن ایک بات ان کے دل کے گوشے میں کھٹک رہی تھی کہ باباصاحب مجزوبانہ طبیعت رکھتے ہیں۔ اس اشارے سے ان کا کوئی اور مطلب تو نہیں۔

دوسرے دن صبح گھر سے تار آیا کہ رات کو بچے کی حالت زیادہ خراب تھی۔ مہاراجہ کشن پرشاد بے چین ہو گئے۔ اور ایک مصاحب رام چندر پرشاد سے کہا کہ آج کسی نہ کسی طرح باباتاج الدین صاحب کے درشن سے فیض حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا کوئی موٹر خواہ کرائے کی ہو حاصل کرو۔

تھوڑی کوشش کے بعد موٹر مل گئی۔ ۴؍بجے لباس تبدیل کر کے اپنے دو مصاحبوں کے ساتھ ہوا خوری کے لئے نکلے ۔ مہاراجہ لکھتے ہیں ۔

جہاں تک گیا اور دیکھا ناگپورکی بستی کو خوشنما پایا، سڑکیں سینۂ بے کینہ کی طرح صاف۔ اس کے دورویہ گھنے درخت مسافر اور رہ گزر پرسایہ ڈالتے ہیں۔ مکانات کی باقاعدہ، سجل قطار، راستے وسیع۔

چلتے چلتے راجہ کے اس باغ تک پہنچے جہاں باباصاحب مقیم تھے۔ دریافت سے معلوم ہواکہ باباصاحب موجود ہیں مہاراجہ کشن پرشاد فوراًموٹر سے اتر کر اندر داخل ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں۔

دیکھتا کیا ہوں کہ زائرین کا تانتا بندھاہواہے۔ اورمنتظرِ فضلِ باری ہیں اور مجزوب کے مظہر کو اپنا قاضی الحاجات سمجھ کر اپنا دامن پھیلائے ہوئے ہیں۔ اور مظہرِ ذاتِ نا متناہی عبودیت کے خلعت سے مزین ہوکر مجزوب کی تصویر بن کر ہر ایک کے دردکی دوا کرنے میں اپنی مسیحائی دکھا رہاہے۔جل جلالہ جل شانہ۔اس وقت باباصاحب دوسری طرف متوجہ تھے۔ میرے پسِ پشت جاکر کھڑے ہوتے ہی  چونک کر فوراًمیری طرف دیکھ کر نظرملائی۔ نظر کا ملنا تھا کہ میرے قلب پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوئی جس کا اظہار قلم سے ممکن نہیں۔ درحقیقت ان کی نسبت نہایت قوی اورنظرمیں برقی قوت تھی۔ میں نے بھی ان کی دید سے نظر نہیں چرائی۔ دس منٹ یا اس کچھ زائد عرصہ ہواہوگا۔ بقول شخصے

دید تو مغز است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

اس دید بازی کے مزے خوب ملے۔ اس کے بعد باباصاحب نے کہا۔ "شرارتیں کرتے ہو، جاؤ سیدھے گھر جاؤ۔"

میں سلام کرکے واپس ہوا ۔ اگر چہ بعض کا خیال ہوا کہ میں ان سے کچھ کہوں ۔ مگر ان کی زبردست نسبت نے مجھے ہر طرح مطمئن کر دیا تھا۔ جب تھوڑی دور تک میں چلا تو میرے پیچھے ہی آئے اور ایک مائی صحابہ بیٹھی تھیں ان سے چوڑی لی اور مجھے دے کر کہا ۔"لو بس اب تو جاؤگے۔"میں نے چوڑی لی اور اس کا تفاول بھی نیک خیال میں آیا۔ میں پھر سلام کر کے واپس ہوا۔ میرے ساتھ آئے میں کھڑاہوگیا۔ وہاں کبوتر اڑرہے تھے ان کی طرف مخاطب ہوکر درختوں کے گملوں میں سے کچھ مٹی اٹھائی اورکبوتروں کی طرف ڈال کر خدا جانے کیا فرماتے رہے ۔ میں تو ان کی دید میں محو تھا۔ اس اثنامیں ایک معتقد سگریٹ روشن کرکے باباصاحب کی طرف متوجہ ہوا۔ آپ نے فوراًمیرے طرف دیکھ کر اس سے کہا "یہ تو ان كو دے دو ، یہ پئیں گے۔ ان کے واسطے " اور وہ سگریٹ مجھ کو عنایت فرمایا۔ میں نے اس کو لے لیا ۔ جب میں جانے لگا تو جیسے فوجی سلام کر تے ہیں۔ اسی طرح سلام کر کے یہ الفاظ کہے۔

All right and good morning (یعنی سب کچھ بہتر ہے)صَبَّحکَ اﷲ۔

اس سے بہتر اور تفاول نیک اور جامع اور کیا کیاہو سکتاتھا۔ میں پھر سلام کر کے رخصت ہوا۔ پھر میرے ساتھ ساتھ وہاں تک آئے جہاں میں موٹر سے اترا تھا۔ وہاں سے وہ دوسری طرف چلے گئے اور میں خداحافظ کہہ کر اپنی فردد گاہ کی طرف روانہ ہوا۔

آخر میں مہاراجہ کشن پرشاد نے اپنے سفرنامۂ ناگپوراس بیان پر ختم کر دیاہے۔ادھر زلفِ یار نے کمر تک رسائی کی ۔ اور ادھر نصف شب نے سیاہ چادر کمر تک تان لی۔

جَعَلَ اللَّیْلَ لِبَاساًکے حکم کے مطابق بستر پر دراز ہو گیا۔دوسرے روز منماڑ پہنچا ۔ وہاں بذریعہ تار اطلاع ہوئی کہ برخوردار کا مزاج روبہ اصلاح ہے۔ ڈاکٹرہنٹ نے کہہ دیا کہ اب کوئی خطر ہ نہیں رہا۔ ٹمپریچر ۰۱ا؍سے زیادہ نہیں ہے۔ الحمدﷲالمنت یہ نوید مسرت آمیز کے سننے سے دل شاد باغ باغ ہوا۔وہاں سے سیلون بدل دیا گیا۔ میٹر گیج لائن کاایک سیلون سے لے کر اورنگ آباد کے راستے سے چہار شنبہ کے روز، چار بجے کی ٹرین میں الوال میں داخل ہوا ۔ اور وہاں سے بذریعۂ موٹر مکان میں آیا۔ اورسب کو خیر وعافیت کے ساتھ پایا۔ سجدۂ شکر بجا لایا اور شادی کے آغاز کے لئے حکم دے دیا۔ خدائے تعالیٰ ہمیشہ ہربات کاانجام بخیر کرے۔

سفرنامے کی تاریخ کے متعلق پتہ چلا کہ غزہ جمادی الآخر ۳۳۱اھ کو ۸؍مئی ۱۹۱۳ ؁ء اور روزِ پنجشنبہ تھا۔ مہاراجہ کے بیان کے مطابق ۷؍تاریخ کو منگنی ہوئی ۔ ۸؍تاریخ روزِ پنجشنبہ کو بچے کی طبیعت زیادہ بگڑ گئی۔ اسی روز مہاراجہ حالتِ استرار میں ناگپورکی طرف نکل گئے۔ واپسی چہار شنبہ کو عمل میں آئی۔ اسی طرح یہ ثابت ہوا کہ ۸؍جمادی الآخر ۱۳۳۱ھ مطابق ۱۵؍مئی ۱۹۱۳ء روزِ پنجشنبہ کو آغازِ سفر کیا۔ اورساتویں روز ۱۴؍جمادی الآخر مطابق ۲۱؍مئی کو حیدرآباد واپس آئے۔ اس لحاظ سے یہ سفر ۷؍دن کا ہوتاہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد دوسری دفعہ بابا صاحب  کی خدمت میں آئے تو نظام دکن کا ایک فرمان بھی ساتھ لائے ، جس میں کچھ جاگیر نظام میں باباصاحب کی نذر کی تھی۔ باباصاحب نے فرمان چاک کر تے ہوئے کہا۔

"نظامِ دکن کا دماغ خراب ہو گیاہے۔ کہ زمین کے مالک کو زمین نذر کرتاہے۔ اس سے کہو کہ ہم نے تم کو زمین دے رکھی ہے۔ "

Topics


Tazkirah Baba Tajuddeen Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

عارف باﷲخاتون

مریم اماں

کے نام

جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ؒ

کا ارشاد ہے:

"میرے پاس آنے سے پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"