Topics
کائنات میں رنگ رنگ عجائبات پر جب ہم غور کرتے
ہیں تو ہمیں دو رخ نظر آتے ہیں۔ ایک رخ انکار وشکوک وشبہات پرقائم ہے اور دوسرا رخ
یقین اور سچائی پر قائم ہے۔ کائنات میں انکار اوراقرار کے یہ دونوں رنگ ہر لمحہ اورہر
آن متحرک رہتے ہیں۔ یقین اوراقرار کا تذکرہ سچائی اور راست بازی سے کیا جاتاہے۔ جس
طرح انکار کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح سچائی اورراست بازی کا تذکرہ
بھی ہمیشہ سے ہوتا چلاآیاہے۔ عام طورپر اس لفظ کی معنویبت اور طاقت پربہت کم غور کیا
جاتاہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جیسے ہی یہ لفظ زبان پر آتاہے کہنے والا اپنے اندر
لامحدود طاقت کے چشمے ابلتے ہوئے محسوس کرتاہے۔ کائنات کی ساری طاقتیں اسی لفظ میں
پوشیدہ ہیں اور راست بازی قدرت کا دوسرا نام ہے۔ ہم جس چیز کو غیب کے نام سے جانتے
ہیں وہ بھی دراصل راست بازی کی چھپی ہوئی طاقتوں کا ایک مربوط نظام ہے۔ نبی اور رسولوں
کے ذریعے دنیا میں جتنے بھی غیر معمولی مذاہب رونماہوئے ان سب نے راست بازی کے خدو
خال میں نشوونما پائی۔ نبی اور رسولوں کی بعثت کا سلسلہ جب ختم ہوگیا تواﷲتعالیٰ کی
سنّت کے مطابق ، انبیاء کے شاگردوں کو انبیاء کی طرزِ فکر منتقل ہوتی رہی۔ لوگ پیدا
ہوتے رہے اورانبیاء کرام کے علوم ان پاکیزہ نفس حضرات نو منتقل ہوتے رہے۔ عرف عام میں
ان ہی با حوصلہ ، باعزم، باہمت اور راست باز لوگوں کو اولیاء اﷲکہا جاتاہے۔ یہ اولیاء
اﷲدراصل شکل و صورت میں ، فکر و نظر میں اور حیات وممات میں راست بازی کے نقوش ہیں۔
سچائی اورراست بازی ان شخصیتوں میں رواں دواں رہتی ہے۔ ان کی پیشانیوں پرضوفشاں رہتی
ہے۔ ان کی نورانی آنکھوں سے جھلکتی ہوئی بصیرت اورزبان سے نکلے ہوئے الفاظ راست بازی
کے پیغامات ہوتے ہیں۔ اوریہی نوعِ انسان کا حقیقی سرمایہ ہیں۔
ماضی ہو، دورِ حاضر کی مادّی ترقیاں ہوں یا
مستقبل میں زمین و آسمان کو ایک بنادینے والی ایجادات ہوں بہر کیف عارضی اور فنا ہوجانے
والی ہیں لیکن اہلِ زمین کے لئے راست بازی ایک ایسا سرمایہ ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔
اس لامتناہی اورہمیشہ قائم رہنے والے سرمائے کا نام حقیقی دنیا میں روحانیت ہے۔ جن
شخصیتوں اور قدسی نفس حضرات کو یہ سرمایہ حاصل ہے وہ انسانی زندگی کا جوہر ہیں۔ ان
کے فیض سے انسانی چہروں میں سادگی وپاکیزگی، انسانی قدروقامت میں صبر و عزم ، انسانی
قلب میں نور اور روشنی کی تحریکات ملتی ہیں۔ یہ روشن اور منوّر لوگ اندھیروں اور اجالوں
کے درمیان حدِّفاصل ہیں۔
ترقی اور تہذیب کے نت نئے شگوفے انسانیت کے
ماتھے پر جھومر نہیں سجا سکے۔ لیکن ان پاکیزہ خیالات لوگوں نے ہمیشہ نوعِ انسانی کو
سکون وراحت کی دولت سے نوازا ہے۔ آج بھی یہی لوگ اﷲتعالیٰ کی طرف سے مجسم پیغام ہیں۔
ان کی پیشانیوں سے وہ شعاعیں نکلتی ہیں جن شعاعوں کے ذریعے فرش والے عرش پرمتمکن ہوجاتے
ہیں اور اﷲکی آواز صوتِ سرمدی بنکر ان کے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔ نگاہ اوپراٹھتی
ہے تو تجلیات کا ہجوم ان کا استقبال کرتاہے۔
ان ہی پاکیزہ ، باکردار اور مقدّس ومطہّر حضرات
میں علم وعرفان سے آراستہ ایک ہستی حضرت بابا تاج الدین ناگپوری رحمۃ اﷲعلیہ ہیں۔
جس طرح روشنی کے ظہور کے لئے میڈیم (بلب) کا
ہونا ضروری ہے اسی طرح قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ خود کو کائنات کے ذرّے ذرّے میں منعکس
کرنے کے لئے اپنا ایک میڈیم کا عمل ہوتاہے ۔ قدرت جو کچھ دکھانا چاہتی ہے قدرت جو کچھ دکھانا چاہتی ہے اس کا مفہوم اس کی گفتار میں چھپا ہوتا ہے۔قدرت جو کچھ دکھانا چاہتی ہے، وہ سب اس
کی آنکھوں میں عکس ریز رہتاہے۔ ایسے لوگوں کی زندگی کے ایک ایک لمحے پر قدرت کے سربستہ
راز محیط ہوتے ہیں۔ بلاشبہ یہ پاکیزہ حضرات اعلیٰ ترین انسانی صلاحیتوں سے متصف ہوتے
ہیں۔
حضرت بابا تاج الدینؒ کا شمار ان لوگوں میں
ہوتاہے جن کے دماغ پسِ پردہ عمل میں آنے والے مناظر کو براہِ راست دیکھتے اور سمجھتے
ہیں۔ ان کا ذہن خیال اور تصور میں بھی مشیّت کے اشارے تلاش کر لیتاہے۔ ایسے حضرات کے
اندر غیر معمولی صلاحیتیں کام کرتی ہیں۔ اتنی غیرمعمولی صلاحیتیں کہ جو چیزیں سامنے
نہیں ہوتیں وہ ان کو بھی سامنے لے آتی ہے۔ ان کے ذہن کے ساتھ کائنات کی ہر شئے حرکت
کرتی ہے۔
قدرت اپنی صناعی کو متعارف کرانے کیلئے ایسے
حضرات پیداکرتی ہے جو قدرت کے امین ہوں۔ قدرت کا یہی جذبہ بابا تاج الدین جیسی ہستی
کی پیدائش کاباعث بنتاہے۔ جس طرح کوئلہ ایک پتھر ہے اور ہیرا بھی پتھروں کے قبیلے سے
تعلق رکھتاہے۔ اسی طرح ہم انسانوں کی دنیا میں بابا تاج الدینؒ بھی ایک ہیرا تھے جسے
مشیّتِ ایزدی نے تراش خراش کے مراحل سے گزارکر رنگ ونور کا مجموعہ بنادیاتھا۔
اولیاء اﷲاورعارف باﷲحضرات کی تاریخ میں بابا
صاحب کی
ذات ایک پورا باب ہے۔ ایسا باب جس کو پوری طرح سمجھنا ہم جیسے لوگوں کے لئے تو کُجا
بڑے بڑے لوگوں کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی جو کچھ بابا صاحب سے متعلق ہم تک پہنچا ہے اس کے ذریعے ہم اپنے
ذہنوں میں بابا صاحب کی ہستی کا ایک خاکہ ضرور بنا سکتے ہیں۔
اسی
طرح جس طرح طلوعِ آفتاب سے پہلے ہم سورج کو نہیں دیکھ سکتے ۔ لیکن جوروشنی رات کے سیاہ
اندھیرے کو چاک کردیتی ہے۔ اسے دیکھ کر سورج کی موجودگی اور اس کی عظمت کا تصور ہمارے
ذہنوں پرمرتّب ہوجاتاہے۔ اہلِ نظر سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ بابا صاحب جیسی عظیم المرتبہ ہستی ساڑھے تین ہزار سال
میں پیدا ہوتی ہے۔
بابا تاج الدین کا تذکرہ کوئی قصہ پارینہ نہیں
ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے بابا صاحبؒ کو دیکھا ہے ، ان
کی باتیں سنی ہیں۔ ان کے انداز واطوار کو مشاہدہ کیاہے۔ ماضی قریب میں بہت سے لوگ ہم
سے جداہوگئے۔ جن کی آنکھیں بابا صاحب کی شانِ جلال وجمال کی امین تھیں ۔ ان لوگوں میں
عام طبقے سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ، نہایت قابل اور مقتدر افراد شامل ہیں۔ ان حضرات
نے جب بھی بابا صاحب کا
ذکر کیا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا لہجہ بدل جاتاہے۔اندازِ بیان میں تبدیلی آجاتی ہے۔
احترام، عقیدت اور اعترافِ عظمت ان کے ایک ایک لفظ سے ٹپکنے لگتاہے۔
بابا تاج الدین نہ کوئی حاکم تھے نہ آپ کے
پاس دولت کی قوت تھی، نہ ہی مذہبی اقتدار حاصل تھا۔ پھر بھی نہ جانے کون سی حکومت اورخوبی
انہیں حاصل تھی کہ حکمرانوں ، نوجوانوں اور رؤساکی پیشانیاں اس فقیر کے دربارمیں جھک
جھک گئیں۔ ۳۵؍ سال تک لوگ قطار در قطار کھنچے ہوئے ان کے
پا س پہنچے۔
باباصاحب کا یہ بہت بڑا اعجاز ہے کہ مسلسل ۳۵؍سال عوام میں رہ کر ان کی حاجت روائی فرمائی۔اپنی توانائی، ذہن اور وقت کا ایثار کرکے لوگوں کے لئے سامان تسکین فراہم کیا۔ لوگ حاضرِ خدمت ہوتے تو سب دُکھ بھول جاتے اور یوں لگتا جیسے خوشی اوراطمینان ان کے خون کے ساتھ دوڑنے لگاہے۔ لوگ وہ مسرتیں حاصل کرتے جو دنیا کے سارے وسائل فراہم ہونے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ سادگی اورخلوص کے اندرونی چشمے یک دم ابل پڑتے۔ ایسا معلوم
ہوتا کہ ساری آلائشیں دھل گئی ہیں۔ اور دماغ پاکیزگی اور لطافت سے معمور ہوگیاہے۔
بابا صاحب کی زبانِ
مبارک حق کی آواز تھی۔ ان کی جامع صفاتِ ہستی پر حدیثِ قدسی کے یہ الفاظ پوری طرح صادق
آتے ہیں۔
"اے میرے بندے! میری اطاعت کر، میں تجھے
اﷲوالا بنادوں گا۔ پھر تو جس چیز کو کہے گا ہوجا، وہ ہوجائے گی۔"
آج ناگپورکی وجہِ تعارف بابا تاج الدین ہیں۔
ناگپور کانام آتے ہی بابا صاحب کا
تصور ذہن میں آجاتاہے۔ صرف ناگپورہی میں نہیں ، ہرجگہ بابا صاحب کے
نام کا ڈنکا بج رہاہے۔ آج بھی لاکھوں دلوں پر بابا صاحب کی حکومت
قائم ہے۔ بابا کے نام کے ساتھ لاکھوں دلوں میں عقیدت ومحبت کے بے لوث جذبات موجزن ہوجاتے
ہیں۔
لاکھوں
گھروں میں بابا صاحب کی
آویزاں تصاویر اس تعلق خاطر کی گواہ ہیں۔ آج بھی بابا تاج الدین کا نام پردہ سماعت
سے ٹکراتاہے یا نگاہ ان کی تصویر پرپڑتی ہے تو لگتاہے کہ بابا صاحب اپنی
شانِ ولایت سے جلوہ افروز ہیں۔ بے شک ایسے قدسی نفس حضرات کو موت فنا نہیں کر سکتی۔
وہ اَمَرہیں۔ زندگی ان کی آغوش میں کروٹیں لے رہی ہے لیکن ہمیں شعور نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"