Topics
آپ کا تعلق مدراس سے تھا اور اجداد فوجی تھے۔
حکیم صاحب کے چچا حیدرآباد دکن کے شاہی طبیب تھے۔ چچانے بے اولاد ہونے کی وجہ سے ان
کو لے کر پالاتھا۔ چچا نے آپ کو اچھی تعلیم دلوائی اور طب بھی پڑھائی۔ بابا تاج الدینؒ
کا ذکر سنا تو شوقِ دیدار میں واکی حاضر ہوئے۔ باباصاحبؒ نے فرمایا۔" دنیا کا
چند روز ہ تماشہ دیکھ کر آؤ۔" حکیم صاحب حیدرآباد واپس چلے گئے۔
کلیانی کے نواب حکیم صاحب کی شخصیت سے بہت
متاثر ہوئے اور ان کو اپنا معتمد بنالیا ۔ اعتماد یہاں تک بڑھا کہ حکیم صاحب نواب صاحب
کی جائداد کے مختار ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد نواب صاحب کا انتقال ہوگیا۔ حکیم نعیم الدین
کو بہت صدمہ ہوا اور بابا تاج الدینؒ کے الفاظ یا دآئے کہ دنیا کا چند روزہ تماشہ دیکھ
کر آؤ۔
حکیم نعیم الدین کلیانی سے حیدرآباد دکن چلے
آئے اور ارادہ کیاکہ باباصاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوں لیکن والدہ کی خدمت میں رکاوٹ کے خیال سے فی الوقت ارادہ ملتوی کردیا۔ جب والدہ بھی اس دارِ فانی سے
رخصت ہوگئیں تو اپنی جائداد اورسرمایہ رشتہ داروں اورغریبوں میں تقسیم کرکے فقیرانہ
لباس میں دربارتاج الاولیاءؒ روانہ ہوئے۔ چلتے ہوئے آپ نے جھولے میں چچا کی مجرب ادویات
بھی رکھ لیں۔ ان کے ساتھ ایک بوڑھا بھی شریکِ سفر ہولیا۔
شکردرہ پہنچ کر آم کے درختوں کے نیچے قیام
کیا۔ شریکِ سفر بوڑھے کے پاس جو روپیہ پیسہ تھا وہ راستے کے اخراجات میں ختم ہوگیا۔
دوسرے روز بھوک نے ستایا توحکیم صاحب مٹی کا ایک ٹھیکرا لے کر قریبی لنگر پرگئے۔ لنگر
تقسیم کرنے والا لوگوں سے درشتی سے پیش آرہا تھا۔ ان سے برداشت نہ ہوسکا اور خالی ہاتھ
واپس چلے آئے۔ وہ دن بھوکے رہ کر گزارا۔ اگلے دن ہمراہی بوڑھے نے بھوک کی شکایت کی۔
حکیم صاحبؒ کے پاس کسی فقیر کی دی ہوئی اکسیر تھی اس سے ایک تولہ سونا تیار کیا اوربوڑھے
کو دیا کہ بازار میں فروخت کر آؤ۔ ادھر بوڑھا بازار گیا، بابا تاج الدینؒ اپنی قیام
گاہ سے نکل کر درخت کے نیچے آئے اور حکیم صاحب سے کہا۔" عقبیٰ کا متلاشی دنیا
لے کر آیا ہے۔" یہ کہہ کر اکسیر بنانے کے سامان کو اوندھا کر دیا اور چلے گئے۔
کچھ دیر بعد بوڑھا بازار سے کھانے کا سامان
لے کر آگیا۔ حکیم صاحب نے باباصاحبؒ کی آمد کا حال کہہ کر بوڑھے کو واپس حیدرآباد بھیج
دیا اور وہ جھولا جس میں اکسیر وغیرہ رکھا ہوا تھا زمین میں دفن کر دیا۔ دودن حکیم
صاحب نے درخت کی پتیاں کھاکر گزارے۔ تیسرے روز وزیر نامی صاحب جو بعد میں وزیر باباجھنڈے
والے کی نام سے مشہور ہوئے وہاں آئے اورحکیم صاحب کو اپنی جھونپڑی میں لے گئے۔ اور
ان کی ضروریات کا خیال رکھنے لگے۔
رفتہ رفتہ لوگوں میں حکیم نعیم الدین صاحب
کی شہرت ہونے لگی اور لوگ آپ کی عزت کرنے لگے۔ آپ کے لئے جھونپڑی بھی بنادی گئی جس
میں جس میں آپ معتکف رہتے ۔ بہت کم باہر نکلتے تھے۔ آپ کو باباتاج الدینؒ سے ایسی ذہنی
نسبت ہوگئی تھی کہ جب لوگوں کو باباصاحبؒ کی کہی ہوئی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی
توآپ سے رجوع کرتے۔ آپ فوراً اس کا مطلب بتادیتے تھے۔
وصال کے دن آپ نے کہہ دیا تھا کہ آج ہماری
روانگی ہے۔ آپ کا حال یہ تھا کہ گھنٹے ، آدھا گھنٹے بعد آنکھیں کھول کر پوچھتے، "کتنا
بجاہے؟" شام کو پانچ بجے کے قریب پھر یہی سوال کیا تو بتایا گیا کہ پانچ بجے ہیں۔
یہ سن کر حکیم صاحب نے بلندآواز سے کہا۔
" لااِلٰہ الّااﷲ، پیر نبی جی صلی اﷲ۔"
تیسری دفعہ یہ کہنے کے ساتھ ہی آپ کی روح پرواز کرگئی۔ حکیم نعیم الدین صاحب کا مزار
نندورامیں گیان ندی کے کنارے واقع ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"