Topics

تعلیم وتلقین

بابا صاحب  دوبنیادی باتوں پر زور دیتے تھے۔ ایک اﷲتعالیٰ سے تعلق اور دوسرا اخلاصِ عمل۔ باباصاحب کومردم آزاری اورظلم سخت ناپسند تھے۔باباصاحبؒ کہتے تھے۔"اﷲاﷲکرتے ، اچھے رہتے۔" اﷲتعالیٰ سے رابطہ دین کی روح ہے۔ اورصلوٰۃ ہویا ذکرِالٰہی سب اسی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ باباصاحب ؒ کامنشاء یہ تھا کہ اﷲسے تعلق خاطر ویسے ہونا چاہئے جو ایک بندے اور خالق کے درمیان ضروری ہے۔حاضرینِ دربار کے فکر وعمل کی خامی کو باباصاحبؒ نہایت لطیف پیرائے میں ظاہر کرتے تھے، اس طرح کہ وہ سمجھ بھی جائیں اوران کی پردہ پوشی بھی رہے۔ کسی بات کی تلقین فرماتے تو اکثر تمثیلی زبان استعمال کرتے۔

فدائے رام نامی ایک سود خور واکی میں باباصاحب کے پاس آیا۔ تو باباصاحب نے ایک لکڑی اٹھائی اور مارتے ہوئے کہا۔"بڑا ظالم ہے، مخلوق کو ستاتا۔"پھر فرمایا۔"سود لینا چھوڑدے۔" خدائے رام پر ایسا اثر ہوا کہ عمر بھر وہ بابا صاحب  کے پاس رہا اور سودی کاروبار چھوڑ دیا۔ایک پیر صاحب بابا کے پاس آئے اور عرض کیا کہ حضور! دعا فرمائیں کہ مجھے روحانیت میں ترقی نصیب ہو۔

باباصاحب نے کہا۔"کتّامارکر لاؤ،ہم دونوں کھائیں گے۔"

باباصاحب ؒ کا اشارہ اس حدیث کی طرف تھا کہ دنیا مردارہے اور اس کے طالب کتّے ہیں۔مولانایوسف شاہ صاحب کی ایک درویش سے راہ ورسم پیدا ہوگئی۔ اوررفتہ رفتہ تعلقات دوستی میں بدل گئے۔ وہ درویش کیمیا جانتے تھے۔ انہوں نے مولانا کو ترکیب بتادی۔ مولانا صاحب نے سوچا اگر باباصاحب اجازت دے دیں تو بلا محنت ومشقت کے بہت اچھا ذریعۂ آمدنی ہو جائے گا۔ باباصاحب کے پاس پہنچے تو باباصاحب نے فرمایا۔"غلاظت کھانا چاہتے ہو؟"مولانا فوراًسنبھل گئے۔

ٍ ایک صاحب کو یہ زعم تھا کہ باباصاحب سے تعلق رکھتاہوں۔ اس لئے کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ٹھیک سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔ ایک دفعہ باباصاحب نے ان سے کہا۔" ہم سے کم کسی کو نہیں سمجھتے۔"ٍ اکثر طوائفیں بھی حاضر ہوتی تھیں۔لوگوں کو یہ بات عجیب دکھائی دیتی تھی لیکن باخبر لوگوں کو پتہ تھا کہ شایدہی کوئی طوائف ہو جس کی حالت دربارمیں حاضر ہونے کے بعد بدل نہ گئی ہو۔ طوائفوں کو مختلف پیرائے میں حکم دیتے تھے۔ مثلاًفرماتے تھے۔"اماں، سواری کے لئے ایک گھوڑاپسند کر لو۔"

ایک دفعہ باباتاج الدینؒ کے چند نام لیوا شکردرہ میں باباصاحب ؒ کی جائے قیام سے کچھ فاصلے پر بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ ایک نے کہا ، میں تم سب لوگوں پر فوقیت رکھتاہوں ، اس لئے کہ میں ساری جائداد چھوڑکر بابا صاحب  کی خدمت میں آیاہوں۔ دوسرے نے کہا، میری قربانی تم سے کم نہیں ہے۔ میں تو پوری دوکان چھوڑکر حاضرہواہوں۔ غرض ہر شخص اپنی بڑائی جتارہاتھا۔ اسی لمحہ باباصاحب محل سے باہر نکل کر ان لوگوں کے پاس آئے اور یہ قرآنی آیت پڑھی:

ترجمہ: لوگ اسلام لانے کا آپ پر احسان دھرتے ہیں۔ کہہ دو اے نبیؐ! تم اپنے اسلام لانے کا احسان مجھ پر نہ رکھو۔ یہ تواﷲکا احسان ہے تم پر کہ تم کو ایمان کو طرف رہنمائی فرمائی۔(پ ۳۶، ع۱۴)

مختصر یہ کہ جلالی وجمالی کیفیت میں اشاروں ، کتابوں اور تمثیلی اندازِ بیان کے ذریعے حاضر ین کو تلقین جاری رہتی اور بنیادی نکتہ یہی ہوتا کہ لوگ حرص وہوس سے آزاد ہو جائیں۔ اورکوئی ایسا کام نہ کریں جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ کبھی کبھی تیزوتند لہجہ بھی اختیار کرلیتے ۔ ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ بابا آپ لوگوں کوسخت وسست کیوں کہتے ہیں؟ جواباً فرمایا۔"نہیں رے، میں توانہیں دعادیتاہوں۔"

Topics


Tazkirah Baba Tajuddeen Aulia

خواجہ شمس الدین عظیمی

عارف باﷲخاتون

مریم اماں

کے نام

جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج الدین ؒ

کا ارشاد ہے:

"میرے پاس آنے سے پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"