Topics
بسم اﷲالرحمٰن الرحیم
یہ ایک مختصر تذکرہ ہے اس بات سے متعلق کہ
اولیاء اﷲ کس طرح سوچتے ہیں اور ان کی باتوں کا اہم موضوع کیا ہوتاہے۔ ناناتاج الدینؒ کی
کرامتوں کا تذکرہ سب سے پہلے گجراتی زبان کی ایک تالیف میں کیا گیاتھا۔ بعدمیں ہندی
اوراردو میں وہ نسخے مرتب ہوئے جن میں کچھ تو گجراتی زبان کی تالیف سے اخذ کیا گیا
اور کچھ روایت کے طورپر بہت سے حضرات کے بیان کردہ واقعات اضافہ کئے گئے۔ تاہم کسی
تذکرہ میں ان مخفی علوم کو نقطۂ نظر نہیں بنایا گیا تھا جن کا تعلق نانا رحمۃ اﷲ علیہ
کے ذوقِ طبیعت اورقدرت کی رازداری سے ہے۔ وہ صرف خصوصی مسائل
ہی میں نہیں بلکہ عام حالات میں بھی اپنی گفتگو کے اندر ایسے مرکزی نقطے بیان کر جاتے
تھے جو براہِ راست قانونِ قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہیں۔ بعض اوقات اشاروں اشاروں
ہی میں وہ ایسی بات کہہ جاتے جس میں کرامتوں کی علمی توجیہ ہوتی اور سننے والوں کی
آنکھوں کے سامنے یکبارگی کرامت کے اصولوں کا نقشہ آجاتا۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا
کہ ان کے ذہن سے تسلسل کے ساتھ سننے والوں کے ذہن میں روشنی کی لہریں منتقل ہورہی ہیں
اور ایسا بھی ہوتا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور حاضرین من وعن ہر وہ بات اپنے ذہن
میں سمجھتے اورمحسوس کر تے چلے جاتے ہیں جو نانا رحمۃ اﷲعلیہ کے ذہن میں اس وقت گشت
کر رہی ہے۔ بغیر توجہ دیئے بھی ان کی غیرارادی توجہ لوگوں کے اوپر عمل کرتی رہتی تھی۔
بعض لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے باباصاحب کے اس طرزِ ذہن سے بہت فیضان حاصل کیا ہے۔
یہ بات تو بالکل ہی عام تھی کہ چند آدمیوں کے ذہن میں کوئی بات آئی اور یکایک نانا
رحمۃ اﷲعلیہ نے اس کا جواب دے دیا۔ اردو بولنے میں انہیں اکثر سوچنا پڑتا۔ پھر بھی
الفاظ میں کچھ ایسازور ہوتا کہ سامعین ان کا مافی الضمیر فوراً سمجھ جاتے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"