Topics
اگلی صبح عثمان اسٹیشن کی طرف روانہ ہوا۔ چوتھے بنگلے کے ڈاکٹر چودھری کی تختی اس نے پہلے بھی دیکھی
تھی جس پر خاصے موٹے حروف میں اس کی ڈگریاں کندہ تھیں۔ مگر اس وقت وہ ساری ڈگریاں ایک
خوبصورت چہرے کی اوٹ میں چھپ گئیں۔
"ٹامی، ٹامی! "ایک باریک نسوانی
آواز بلند ہوئی۔ اس نے ایک چھوٹے سے کتے کو دم ہلاتے دیکھا۔ پھروہ خوبصورت چہرہ اندر
چلا گیا۔ اس خاتون کا ذکر اس سے کسی دوست نے کیا تھا۔ اس کا نام للیتادیوی تھا۔ وہ
ڈاکٹر چودھری کی بیوی تھی اور ڈاکٹر چودھری ریلوے میں اچھے مشاہرے پر ملازم تھے۔
اس رات دو بجے کے قریب اچانک عثمان کی آنکھ
کھلی ۔ باہر احاطے میں قدرے منحنی آواز میں وحشت خیز قہقہہ بلند ہوا۔ کسی کے بھاگنے
کی آہٹ سنائی دی۔ پھر بجلی کی طرح اسے بابا کے الفاظ یا دآئے۔ عثمان نے ڈنڈا سنبھالا
۔ ٹارچ اٹھائی اور جی کڑا کرکے دروازے کا پٹ کھول دیا۔ برآمدہ بالکل سنسان تھا۔ ٹارچ
کا رخ بڑے لان کی طرف مڑاتو سوکھے گملوں کی اوٹ میں دو سرخ سرخ انگارے چمکے اورغائب
ہوگئے۔ اسے آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اوردہشت سے جھر جھر ی آگئی۔ وہ اندر آیا اور
دوبارہ بستر پر دراز ہوگیا۔ زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ کمرے کے اندر ہیبت ناک چیخ بلندہوئی
اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ ڈنڈا مضبوطی سے تھام لیا۔ پھر دس منٹ بعد چھت کی پراسرار آوازیں
اچانک مدھم ہوگئیں۔ عثمان کی نظر روشندان کی ڈوری پر چلی گئی۔ وہ ہل رہی تھی۔ بالائی
سرے پر کوئی چیز رسی سے لپٹی نظر آئی۔ دھندلااورپراسرار ہیولیٰ رسی پر سرکتا ہوا نیچے
کی طرف آیا۔ اس کے تعاقب میں ویسا ہی ایک اورسایہ دکھائی دیا۔ وہ رسی کے سہارے فرش
پر اترے اورسرکتے ہوئے چارپائی کی جانب بڑھے۔ عثمان نے تاک کر دونوں کے سرکچل دیے۔
اوراسی لمحے بابا کے الفاظ ا سکے کانوں میں گونجے لگے۔ "کیااوربھی آئیں گے۔"
وہ سوچنے لگا۔
سانپوں کے مر جانے کے بعد صبح تک کوئی پراسرار
آواز نہ آئی۔ چڑیاں چہچہانے لگیں۔ عثمان اٹھا۔ لباس تبدیل کیا۔ اورمردہ سانپ وہیں چھوڑکر
باہر نکل آیا۔ چند چڑیاں برآمدے میں بکھرے ہوئے زرد چاول چگ رہی تھیں۔ احاطے میںآیا
تورات کے پر اسرار قہقہے اس کے ذہن میں اجاگر ہوگئے۔ گملوں کی اوٹ میں جدھر دوانگارے
سے چمکے تھے ، ادھر نگاہ دوڑائی تو اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ خشک اورویران لان
میں خون کے تازہ دھبے دکھائی دیے۔ اس کے قدم رک گئے۔ دوسری جانب سے لمبا چکر کاٹ کر
گیٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ وہاں یاک تانگہ آکر رکا۔ آنے والے عبدالغفار اورفضل الکریم
تھے۔
عثمان نے ان کو سارے واقعات سنائے اور جائے
وقوع دکھائی۔ فضل الکریم نے بنگلے کا بغور جائزہ لیا ۔ اور سب کو اپنے پیچھے آنے کااشارہ
کیا۔ وہ قریباً ایک فرلانگ کے فاصلے پر واقع بھنگیوں کی بستی میں پہنچا۔ وہاں پوچھنے
پر معلوم ہو اکہ بھگوت نامی بھنگی کا کتا غائب ہے۔ فضل الکریم نے بستی کے مکینوں کو
بتایا کہ کتے کو کسی نے ماردیا ہے۔ یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ اس کتے کی شرارتوں سے
تنگ آکر اسے بستی سے باہر نکال دیاگیا تھا۔ اورا س نے ایک مرگھٹ میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس کی عادت تھی
کہ رات گئے مرگھٹ سے لوگوں کے گھروں میں آکر چیزیں چرالے جاتاتھا۔ وہ ہنڈیا لے کر بھاگ
جاتا اور ہنڈیا کو زور زمین پر مارکر توڑ دیتا اورکھانا کھالیتاتھا۔ اس انکشاف سے سب
کو پتہ چلا کہ بھوت بنگلے میں پائی جانے والی ہنڈیا اورچاول بھگوت کے کتے کی کارستانی
تھی۔ فضل الکریم سب کے ساتھ دوبارہ بنگلے آیا۔ اوروہاں خون کے دھبوں کے قریب پائے جانے
والے نشانات کو دیکھ کر بتایا کہ ان ہی نشانات کی وجہ سے اس کا ذہن بھوت بنگلے کے واقعات
کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوا ہے۔ فضل الکریم نے انکشاف کیا کہ وہ نشانات لکڑ بگے کے
پیروں کے ہیں جو کتے کا گوشت شوق سے کھاتاہے۔ اورپھر ایسی آواز نکالتا ہے جیسے قہقہہ
بلند ہوتاہے۔ ہوا یہ کہ پہلی دوراتیں کتے اور لکڑ بگے میں کشمکش ہوتی رہی اورپھر کتاقابو
میں آگیا۔ انسانی ہاتھ بھی کتا ہی مرگھٹ سے اٹھا لایا تھا۔
فضل الکریم باتیں کرتے کرتے یکایک سنجیدہ ہوگیا۔
اورغور سے بنگلے کا چھپر دیکھنے لگا ۔ ساتھیوں کو وہیں چھوڑکر عمارت کے گرد عمارت کے
گرد ایک چکر لگایا۔ اورواپس آکر پراسرار انداز میں گویا ہوا۔ جلدی سے ایک سیڑھی اوردوتین
جھاڑو کابندوبست کر ڈالو۔"
سیڑھی ڈاکٹر چودھری کے بنگلے سے مل گئی۔ فضل
الکریم نے چھت گیری ادھیڑ کر علیٰحدہ کر دی۔ گردکی موٹی تہ غبار کی شکل میں کمرے میں
پھیل گئی۔ چھپر اور چھت گیری کے درمیانی
خلا کی صفائی مدت سے نہ ہوئی تھی۔ مختلف پرندوں نے گھونسلے تیار رکھے تھے اور چھپکلیاں
بری تعداد میں رینگ رہی تھیں۔ فضل الکریم نے سارے آشیانے اجاڑدیے۔
دوروز گزر گئے اورکوئی نیا واقعہ پیش نہیں
آیا۔ رفتہ رفتہ وحشت کا احساس زائل ہوتا رہا۔ پھرعثمان کا اعتماد مکمل طورپر بحال ہوگیا۔
تاہم اس کے ذہن میں ایک نامعلوم سی خلش موجود تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"