Topics
ایک شام وہ
کالج ہاسٹل سے لوٹ رہا تھا کہ باباجی تانگے میں آنے دکھائی دیے۔ وہ گھبرا کر ایک درخت
کی اوٹ میں چھپ گیا۔تانگہ قریب آکر رک گیا۔ باباجی نیچے اترے اور اسی طرف چل دیے جہاں
عثمان درخت کی اوٹ میں چھپا ہواتھا۔ عثمان تھرتھر کانپنے لگا۔ باباجی کو ہنسی آگئی۔"او
عثمان !اب کائے کو چھپتارے، سانپاں تھے مرگئے۔ اب کائے کوڈرتا، نکو ڈرتے رے ، تاج الدین
سے نکوڈرتے۔ اﷲسے ڈرتے ۔"
عثمان نے ادب سے سلام کیا۔ باباجی نے اس کا
ہاتھ پکڑا اوراپنے ساتھ ہی تانگے میں بٹھا لیا اور شکر درا کی طرف چل دیے۔
آبادی سے گزرے تو معتقدین کے ایک ہجوم نے تانگہ
گھیر لیا۔ مجبوراً باباجی نیچے اترآئے۔ حاجت مندوں کو دعائیں دیتے ، جھڑکتے ، حالتِ
جذب میں مسکراتے ، خفا ہوتے اور عثمان کا ہاتھ پکڑتے آگے بڑھتے رہے۔ شکر درا تک سلسلہ
اسی طرح جاری رہا۔
معتقدین کے جلو میں بابا اورعثمان راجہ رگھو
جی کے محل میں داخل ہوئے اور اس چھوٹے سے مندرکا رخ کیا جہاں تین دن پہلے سالانہ میلا
لگا تھا۔ چہل پہل ابھی باقی تھی باباجی کو دیکھ کر دو تین پنڈت ہاتھ جوڑے باہر نکل
آئے۔ باباجی نے نرم لہجے میں کہا۔"تمہارا بڑادیوبڑا میلاکچیلا اور گندا لگتا جی۔
میں اسے نہلا دوں؟"
نہیں بابا! آپ دیاکریں۔ ہم آپ ہی اشنان کرادیں
گے۔" انہوں نے گھبرا کر جواب دیا۔
"بابا کونہلانے دیتے رے! تم پنڈتاں رگھوجی
کی اور اپنی لٹیا ڈبو کر دم لوگے۔ تاج الدین کی بات مان لیتے رے!"
"نہیں بابا! " انہوں نے یک زبان
ہوکر کہا۔ باباہنس کر آگے بڑھ گئے اور پھر آہستہ سے بڑبڑائے۔"عثمان !تو ان کے
مہادیوکو ضرور نہلانا رے۔"
عثمان نے کوئی جواب نہ دیا۔ اورپنڈتوں نے اطمینان
کا سانس لیا۔ عثمان کو بعد میں معلوم ہو ا کہ بابا پہلے تھی ایک بار اسی طرح مندرمیں
آئے تھے اور انکی بات پر ہندوبگڑ گئے تھے لیکن کسی کو الجھنے کی ہمت نہ ہوئی تھی۔
اسی احاطے میں راجہ رگھوجی نے لوہے کے کٹہرے
میں شیرپال رکھاتھا۔ باباکی نگاہ اس پر گئی تو بولے "ارے، اسے کیوں بندکر رکھا
ہے؟ بے چارہ پریشان ہورہا ہے نا ۔ کنبے سے بچھڑ گیا۔ کتا بن گیا، ٹامی ٹامی!"
عثمان چونک پڑا۔ ڈرکے مارے اس کا سانس پھولنے
لگا اور جسم پر رعشہ طاری ہوگیا۔ بابانے بڑھ کر پنجرے کا پھاٹک کھول دیا۔ شیر باہر
نکل آیا۔ لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ صرف بابا کا خادم پہلوان
بنکٹ راؤ اورعثمان رہ گئے۔ باباؒ نے کہا۔"بڑا اچھا کتاہے۔۔"پھر عثمان سے مخاطب ہوئے ۔" پنجرے میں پھنستا تو شیر کتا بن جاتا نا۔ تو بھی ٹامی بنے گا عثمان اور بڑے دیو کو نہلائے گا؟"
اس براہِ راست خطاب سے عثمان کے اوسان خطا
ہوگئے۔ اس نے کچھ کہنا چاہا مگر گھگی بندھ گئی۔ اس کی نظر یں شیر پر جمی ہوئی تھیں
مگر بنکٹ راؤ ہر بات سے بے نیاز صرف بابا جی کو دیکھ رہاتھا۔ بابا جی شیر کا چمکار
تے ہوئے اپنے حجرے تک لے گئے۔
کسی نے راجہ رگھوجی کو خبر کر دی ۔ وہ رائفل
سنبھالے دوڑاآیا۔ اوریہ دیکھ کرششدہ رہ گیا کہ شیر بابا جی کے قدموں میں بیٹھاہے۔
"اونالاں! اب کائے کو آیا۔ کتے کو پنجرے
میں ڈالتے تو بھوکا نکو رکھتے۔ تیرے کو بھی پنجرے میں بند کر دوں؟"
"نہیں باباجی!" اس نے گھبرا کر جواب
دیا۔"آپ اسے کٹہرے میں بندکر دیجئے۔ لوگ ڈر رہے ہیں۔"
" یہ آپی بند ہو جائے گا۔ کل سے بھوکا
ہے۔ تو اس کے کھانے کا بندوبست کر۔"
" میں ابھی بندوبست کرتاہوں باباجی مگر........."
"مگر وگر کچھ نہیں۔ "بابا بگڑ بیٹھے
اور پھر شیر سے مخاطب ہوئے۔"جارے جا، تیرا راتب مل جائے گا۔ اپنے پنجرے میں انتظار
کر۔"
شیر نے حکم کی فوراً تعمیل کی رگھوجی کو تحقیق
کرنے پر معلوم ہو اکہ شیر واقعی جوبیس گھنٹے سے بھوکا تھا۔ گوشت کا انتظام جس آدمی
کے سپرد تھا وہ بغیر بتائے چھٹی کر گیاتھا۔
عثمان چپکے سے واپس آگیا اور بابا کے پاس دوبارہ
نہ جانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"