Topics
بابا تاج الدین ؒ کا لب ولہجہ مخصوص تھا۔ آپ مدراسی لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ اردوبولنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ سوچ کر بولنا پڑتا تھا۔ پھر بھی الفاظ میں کچھ ایسا زور ہوتاتھا کہ سامعین ان کا مافی الضمیر فوراًسمجھ جاتے تھے۔ بات مختصر اور پر معنی ہوتی تھی۔ کبھی مثال زبان میں بات کرتے تھے، جس کا مطلب ایک ذہین شخص فوراًنکال سکتاتھا۔ اکثر قرآنی آیات کو گفتگو میں اس طرح استعمال کرتے تھے کہ سائل کے مسئلے کا حل اس میں موجود ہوتاتھا۔
صرف خصوصی مسائل ہی میں نہیں بلکہ عام حالات میں بھی باباصاحبؒ اپنی گفتگو کے اندر ایسے مرکزی نقطے بیان کر جاتے تھے جو براہِ راست قانونِ قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہیں۔ بعض دفعہ اشاروں ہی اشاروں میں وہ ایسی بات کہہ جاتے تھے جس میں کرامتوں کی علمی توجیہ ہوتی اور سننے والے کی آنکھوں کے سامنے یکبارگی کرامت کے اصولوں کا نقشہ آجاتا۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا کہ ان کے ذہن سے تسلسل کے ساتھ سننے والوں کے ذہن میں روشنی کی لہریں منتقل ہو رہی ہیں اور ایسا بھی ہوتا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور حاضرین ہر وہ بات من وعن اپنے ذہن میں سمجھتے اورمحسوس کرتے جارہے ہیں۔ جو باباصاحب کے ذہن میں اس وقت گشت کر رہی ہے۔ بابا صاحب چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، گاہے بہ گاہے کچھ بول دیتے۔ عام آدمی ان جملوں کو بے ربطہ بات سمجھ کر قابلِ توجہ نہیں سمجھتاتھا۔ لیکن اس میں کسی کے مسئلے کا حل، سوال کا جواب یاکسی نکتہ کی وضاحت پوشیدہ ہوتی تھی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
عارف باﷲخاتون
مریم اماں
کے نام
جن کے لئے شہنشاہ ہفت اقلیم
حضرت بابا تاج الدین ؒ
کا ارشاد ہے:
"میرے پاس آنے سے
پہلے مریم اماں کی خدمت میں حاضری دی جائے۔"