Topics
کسی نے کوئی بات دریافت کی تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:
’’ہمیں میزبانی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا شرف حاصل ہے۔ ہم حضرت ایوب انصاریؓ
کی اولاد ہیں۔ ایوب انصاری بہت امیر آدمی تھے۔ اگر غریب آدمی ہوتے تو حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی میزبانی تو نہ کر سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی ان کی
اس میزبانی کا ہمیشہ بہت خیال رہا۔ میرے بھائی مولانا ادریس انصاری نے یہ بات زور
دے کر کہی تھی کہ آپ اپنے سلسلے میں اس بات کو ضرور چھوڑ کر جائیں کہ آپ انصاری
ہیں اور آپ کی نسل حضرت ایوب انصاری سے ہے۔ بھئی یہ کوئی معمولی سعادت تو نہیں لیکن
یہ تو اس سلسلے کی برکت ہے کہ اب تو اپنے عظیمی ہونے پر ہی فخر ہے۔ حضرت ابو ایوب
انصاریؓ نے تین سال تک میزبانی رسولﷺ کی۔ بھئی اونٹنی کسی غریب کے گھر کے سامنے جا
کر رکتی تو وہ اپنے گھر کا خرچ چلاتا یا رسول کریمﷺ کی میزبانی کرتا۔‘‘
پھر میاں مشتاق احمد عظیمی صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا:
’’ان کے پاس ایک کتاب ہے۔ وہ کتاب انڈیا سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں انصاری
خاندان کا شجرہ ہے۔ اس کتاب میں ایک ایسی تصویر بھی شائع ہوئی ہے جس میں، میں اپنے
بڑے بھائی کے ہمراہ کھڑا ہوں۔ میاں صاحب نے تو اپنی ایک کتاب میں بھی اس امر کا
تذکرہ کیا ہے کہ میں ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہوں۔‘‘
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔