Topics
جہلم مراقبہ ہال
پہنچے تو وہاں کے نگران راجہ منیر صاحب کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پھولوں کے ہار
لئے استقبال کو منتظر پایا۔ ہمیں مراقبہ ہال کے ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ ہم نے
کمرے میں داخل ہوتے ہی دراز ہو کر یا ٹیم دراز ہو کر اپنی تھکن کو بہلا لیا تھا
مگر باہر صحن میں مرشد کریم اسی طرح ہشاش بشاش، تازہ دم لوگوں میں گھرے انہیں اپنی
چھتنار مسکراہٹ کے سائے میں لئے بیٹھے تھے۔ وہی میٹھی، مدھر، مدہم سروں والی آواز
وہی پر سکون ٹھہرا ہوا لہجہ اور وہی آدھ کھلی نیم خوابیدہ آنکھیں۔ الٰہی کیا یہ
تھکتے نہیں۔ میری سوچ کے جواب میں میرے مراد ہی کا فرمایا ہوا ایک جملہ میرے ذہن میں
گونجا، جو انہوں نے سلسلے میں داخلے کے بعد میرے اولین دنوں میں کہا تھا۔ میں نے
سلسلے کے پھیلاؤ، خدمت خلق کے حجم اور ان کی روز و شبانہ محنت کا اندازہ لگا کر ایک
بار پوچھا تھا۔
’’آپ اتنا کام کیسے کر لیتے ہیں؟‘‘ اس پر آپ نے فرمایا تھا۔
’’مقصود صاحب! مشن کے کام دیوانگی کے بغیر ممکن نہیں۔ فرزانے کبھی مشن وشن کے
چکروں میں نہیں پڑا کرتے۔‘‘
اس لمحے تک میرے ذہن میں دیوانگی کی جو بھی تصویر رہی تھی وہ وہاں سے اتر گئی
اور اس کی جگہ ہشاش بشاش رہ کر سلیقے اور نفاست سے کام کو محض اس لئے کرتے رہنا کہ
کام ہو جائے۔ صلے کی تمنا اور ستائش کی پروا کئے بغیر کام کئے چلے جانے والے ایک
بندے کی تصویر سج گئی۔
رات کا کھانا کھا کر راجہ منیر صاحب سے رخصت ہو کر ہم جہلم سے روانہ ہوئے تو
گاڑی میں بیٹھے ہوئے آپ نے حاجی ادریس صاحب سے کہا۔
’’کہیں چائے پینی چاہئے۔‘‘ گاڑی روانہ ہوئی۔
حاجی صاحب ڈرائیور کو
ہدایت دے کر گاڑی کے اندر بیٹھے بیٹھے باہر سڑک پر چائے کی تلاش میں سرگرداں ہو
گئے۔ دینہ سے پہلے سڑک کے کنارے ایک ہوٹل میں چائے پینے کے دوران آپ نے تھکن اور
سر درد کا اظہار کیا۔ شاید میری نظر لگ گئی تھی۔
حضور بتا رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے راولپنڈی میں بھی مراقبہ ہال کے لئے زمین
کا بندوبست کر دیا ہے۔ کاکڑہ ٹاؤن کے بعد پنڈی جائیں گے تو وہاں زمین دیکھ کر اس کی
بات طے کرنا ہے۔ اس کے بعد شاید میرا دل بڑھانے کو ارشاد فرمایا۔
’’سوچتا ہوں کہ مجھے ایک دو روز کے لئے پشاور بھی ہو آنا چاہئے۔ اب جب اتنا آ
ہی گیا ہوں تو تھوڑا سا اور آگے جانے میں کیا حرج ہے۔ پنڈی سے نہ اڑے، پشاور سے
اڑ گئے۔‘‘
میں خوشی اور سرشاری
سے جھوم ہی تو اٹھا۔ ممتاز علی نے میرا
ہاتھ دبایا۔ جیسے مبارک دے رہے ہوں۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ میں نے پشاور نہیں
دیکھا۔ اس بار یہ بھی ہو جائے گا۔ میں نے سوچا کہ انہوں نے پشاور نہیں دیکھا اور میں
نے کشمیر۔ مرشد کریم ہم دونوں کو ہی انجانی راہوں سے آشنا کروانے کو ان دیکھی بستیوں
کا مشاہدہ کروانے لے جا رہے ہیں۔
دینہ سے منگلا کی طرف مڑے تو میں رات کے اندھیرے میں اس خطے کو دیکھنے کی کوشش
کر رہا تھا جہاں میں پہلی بار جا رہا تھا اور مجھے خیال آ رہا تھا کہ روحانی علوم
میں ہر تشنگی کو مٹانا بھی ضروری ہوتا ہو گا۔ ہر آرزو ہر تمنا یا تو پوری کر دی
جاتی ہے اور یا پھر ذہن میں سے اس کی طلب ہی اکھاڑ پھینک دی جاتی ہے تا کہ ذہن میں
کوئی خلش کوئی ارمان اور کوئی تشنگی نہ رہے۔ بندہ اتنا پر نظر ہو جائے کہ کوئی
منظر، کوئی بات اس کی راہ کھوٹی نہ کر سکے۔ کشمیر دیکھنے کا مجھے کئی بار خیال آیا
تھا مگر عدیم الفرصتی کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات آڑے آتی رہی تھیں اور آج میرے
بھاگ ایسے جاگ رہے تھے کہ میں اپنے مراد اپنے ہادی اپنے مرشد کے ہمراہ وادی کشمیر
جنت نظیر کی طرف جا رہا تھا۔
منگلا چھاؤنی سے گزرتے ہوئے ہوا خنک اور خوشگوار محسوس ہوئی۔ پھر رہ رہ کر
خوشبو کے جھانکے آنا شروع ہوئے۔ مجھے ایسے لگا کہ ان فضاؤں نے آگے بڑھ کر میرے
مراد کے قدم لئے ہوں۔ حاجی ادریس صاحب جو اب تک غیر محسوس سے میزبان بنے ہوئے تھے،
یک دم ایک مستعد اور فرض شناس گائیڈ بن گئے۔ یہ منگلا کی چھاؤنی ہے۔ وہ سامنے جو
روشنیاں نظر آ رہی ہیں منگلا پاور ہاؤس کی ہیں۔ منگلا کی جھیل خشک ہو چکی ہے۔
بارشیں نہیں ہوئیں نا۔ پچھلے سال ڈیم میں اتنا پانی بھر گیا تھا کہ ڈیم اور پاور
ہاؤس کو بچانے کے لئے پانی چھوڑنا پڑ گیا تھا۔ حاجی ادریس صاحب بتا رہے تھے اور
باہر کھیت کی ہوئی چاندنی منظر کو چار چاند لگا رہی تھی۔
جب ہم میر پور میں داخل ہوئے تو رات ڈھل رہی تھی۔ پستہ قامت عمارات اور بازار
میں، بنکوں کی بہت سی شاخیں دیکھ کر میں نے سوال آمیز تبصرہ کیا،’’یہاں بنک کچھ زیادہ
نہیں؟‘‘ ممتاز علی جو بینکار ہیں بتانے لگے کہ بدلیس گئے لوگوں کی رقومات کے سبب یہاں
بنکوں کا کاروبار بہت زیادہ ہے۔ تمام برانچیں فارن Remittencesکے سبب پھل پھول رہی
ہیں یہاں ایڈوائسز تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لوگ اس سرمائے کو صرف بنکوں میں رکھ
کر ہی خوش ہوتے ہیں۔ لوگوں کی خوشی کے تذکرے کے ساتھ ہی چوک میں لگے بینر نے ہمیں
اپنی طرف متوجہ کیا جو جناب خواجہ شمس الدین عظیمی خانوادہ سلسلہ عالیہ عظیمیہ اور
مشہور روحانی اسکالر کی کشمیر آمد کی نوید اور ان کے وہاں پر قیام کی اطلاع لے کر
ہوا میں لہرا رہا تھا۔ مجھے خیال آیا بینر کے کپڑے کے لہرانے اور اس کے جھوم
اٹھنے میں اس اطلاع کا بھی کوئی دخل ہے کہ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب اس وقت
بنفس نفیس اس بینر کو دیکھ رہے ہیں۔
میرپور میں رات کے کھانے کا اہتمام ہماری شام چھ سات بجے متوقع آمد کے تحت کیا
گیا تھا۔ وہ سب انتظار میں تھے۔ ان کی دل جوئی کے لئے دوبارہ کھانے پر بیٹھ گئے،
کھانا کھاتے ہوئے مجھے بُدّھا کا دھیان آ گیا۔ کس طرح ایک مرید کا دل رکھنے کے
لئے اس نے زہریلا کھانا کھایا۔ بُدّھا نے زہریلا کھانا کھانا پسند کیا لیکن مرید
کا دل نہیں توڑا۔ رات گئے ہم کاکڑہ ٹاؤن کی طرف سدھارے۔
راستے میں ناکے پر پولیس کی گاڑی روکی۔ میرپور سے ایک بھائی اور بھی شامل ہو
گئے تھے اس لئے اب گاڑی میں پچھلی سیٹ پر ہم چار آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’آپ کچھ
مزید لوگ بھی بٹھا لاتے۔‘‘ پولیس والے نے بذلہ سنجی کا مظاہرہ کیا۔ جواب میں انہیں
بتایا گیا کہ ’’مہمانوں کو کاکڑہ ٹاؤن پہنچانا ہے اور واپسی پر اس وقت ڈرائیور کا
اکیلے آنا مناسب نہ ہوتا۔ اس لئے……‘‘۔’’اس لئے کیا؟ آپ ذرا نیچے اتریں!‘‘ پولیس
کو مناسب جواب سننا کہاں آتا ہے۔ ایک صاحب اترے۔ دوسرے اترے تیسرے اترے حاجی ادریس
صاحب جزبز ہو رہے تھے۔ ان کے مرشد کے سامنے تو یہ نہ ہوتا۔ میں نے اندھیرے میں بھی
ان کے چہرے پر کھنچاؤ دیکھا۔ ابھی وہ اتر ہی رہے تھے کہ ASIنے انہیں پہچان لیا۔ وہ ان کا
کلاس فیلو رہ چکا تھا۔ اس نے حاجی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر انہیں اترنے سے
روکا۔ معذرت کی اور یہ سن کر حاجی صاحب کے پیر و مرشد ان کے ہمراہ ہیں۔ وہ گھوم کر
اس طرف آئے جہاں حضور شریف فرما تھے۔ ان سے ہاتھ ملایا اور دوبارہ معذرت کی اور
دعا کے لئے کہا۔ آپ نے ان کو دعا دی۔’’اللہ آپ کو خوش رکھے۔‘‘ یہ سن کر کہ یہ ASIحاجی صاحب کے
کلاس فیلو رہ چکے ہیں، میری ذہنی رو، ملکی قوانین میں استثنیات کی طرف پھر گئی۔
ہمارے ملک میں قوانین اور استثنیات کا چولی دامن کا ساتھ جو ہے۔
آگے روانہ ہوئے تو نہ جانے کیوں مجھے یہ سڑک دیکھی بھالی اور جانی پہچانی لگ
رہی تھی۔ پہاڑی سلسلہ شروع ہوا تو حاجی صاحب نے دور پہاڑی پر ایک بڑے سے روشن نقطے
کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہ روشنی کاکڑہ ٹاؤن مراقبہ ہال کی ہے۔ رات کے
چاندنی بھرے اندھیرے میں دور سے وہ روشنی لائٹ ہاؤس کی تمثیل لگی۔ فقیروں کی کٹیا
کی روشنی نے ہمیشہ راہ گم کردہ مسافروں کو راہ دکھائی ہے۔ قصے کہانیوں میں اندھیری
راتوں میں، منزلوں نے جویا مسافروں کو، جنگلوں اور بیابانوں میں اسی
طرح دور سے نظر آنے والی روشنی راہ دکھاتی رہی ہے۔ جو مسافر روشنی کی سمت قدم
بڑھا لیتے ہیں اور کٹیا تک پہنچ جاتے ہیں، کٹیا میں ان کی راہنمائی کو ایک خضر
صورت راہنما موجود ملتے ہیں۔ میں نے سوچا جب ہم وہاں پہنچیں گے تو ہمیں وہاں کون
ملے گا؟ ہمارا مرشد، ہمارا ہادی، ہمارا راہنما تو خود ہمارے ہمراہ ہے۔ ’’نہیں بھئی۔
وہ ہمیں اپنے ہمراہ اپنے ساتھ نہ لئے ہوتا تو یہ روشنی کیسے نظر آتی۔‘‘ اور میرا
دل مطمئن ہو گیا۔
مراقبہ ہال کے بورڈ پر نظر پڑی۔ اس کے پہلو میں ایک بورڈ پر چمکدار حروف میں
انگریزی میں مراقبے کی دعوت پڑھ کر ’’صلوٰۃ بر محمدﷺ‘‘ کا نعرہ سوجھا۔ گاڑی توقع
کے خلاف بورڈ کے پاس رکے یا مڑے بغیر سیدھی چلتی چلی گئی اور پھر کاکڑہ ٹاؤن میں
سے ہو کر گھومتی ہوئی پہاڑی پر چڑھ کر مراقبہ ہال میں داخل ہو گئی۔ شاید اندھیرے میں
رہنے کے سبب اتنی روشنی دیکھ کر آنکھیں چندھیا گئیں یا وہاں واقعی اتنا اجالا
تھا۔ گاڑی رکی۔ دروازہ کھولا گیا۔ مرشد کریم نے سیٹ پر بیٹھے بیٹھے دونوں پاؤں سمیٹ
کر باہر نکالے، انہیں زمین پر ٹکایا۔ اور پھر گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر کسی قدر جھٹکے
سے سیدھے کھڑے ہو گئے۔ کھلا ہوا چہرہ دیکھ کر وہاں کھڑے سب بھائیوں کے چہرے کھل
اٹھے۔ ہار پہنائے گئے۔ عقیدتوں کے پھول نچھاور ہوئے۔ استقبالیہ کلمات کہے گئے۔ ہم
کاکڑہ ٹاؤن مراقبہ ہال پہنچ چکے تھے۔
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔