Topics

کاکڑہ ٹاؤن


                واپسی کے سفر میں انہی درختوں کو دیکھتے، انہی راستوں سے گذرتے، جن پر ہم کچھ دیر پیشتر گزرے تھے، ایک سوچ ابھری، صبح ادھر جا رہے تھے اور اب ادھر۔ اس کے مخالف سمت سفر کر رہے ہیں۔ فرق کیا پڑا؟ صبح درختوں پر روشنی مشرقی سمت سے پڑ رہی تھی۔ اب مغرب کی سمت سے۔ زاویے بدل گئے ہیں۔ صبح کی کیفیات میں تازگی کا مزہ تھا، اس وقت تھکن کا لطف آ رہا ہے۔ صبح درختوں کو اداس دیکھ کر موت کے انتظار کی کیفیت دھیان میں آ رہی تھی اس وقت درختوں کی اداسی کے پیچھے کسی معتبر اور معزز ہستی سے بچھڑنے کا دکھ نظر آ رہا تھا۔ مرید نے اپنے مراد کو دیکھ کر سوچا۔

                کاکڑہ ٹاؤن کے قریب پہنچے تو سورج غروب ہونے کو تھا۔ پہاڑوں میں سورج یوں بھی جلد چھپ جاتا ہے۔ شام پڑنے سے لے کر رات ہونے کا وقفہ میدانی علاقوں کی نسبت طویل ہوتا ہے۔ کاکڑہ ٹاؤن سے پہلے ایک ہوٹل پر رکے۔ گاڑی سے اتر کر ہوٹل کی کرسیوں پر آن بیٹھے۔ ایک طرح بیٹھے بیٹھے نشست تبدیل ہو گئی۔

                ’’اس تبدیلی کو آرام کہا جا سکتا ہے؟‘‘

                مرید نے ذہن میں سوال اٹھنے پر سامنے بیٹھے مراد کی طرف دیکھا۔ سامنے ایک کرسی پر میرا مراد اور دوسری پر حاجی ادریس صاحب، میرے بازو والی کرسی پر ممتاز علی۔ ایک طرف سڑک کا کنارا اور دوسری طرف ہوٹل۔ ہم ہوٹل کے اندر کمروں کے بجائے کھلی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اندر کمروں میں گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی۔ انہوں نے میرے سوال کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ ہوٹل کا مالک خود چائے بنانے، برتن لگوانے اور مہمانوں کی دیکھ بھال کرنے میں لگا ہوا تھا۔ ہوٹل کے مالک کو خود پر کچھ خصوصی توجہ دیتے ہوئے دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا میں نے پوچھ ہی لیا کہ کیا ان صاحب کو معلوم ہے کہ آپ کون ہیں؟ میرے مراد نے اس سوال کا جواب نہیں دیا البتہ حاجی ادریس صاحب کہنے لگے:

                ’’یہ لوگ بہت سمجھدار ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ہم سب ایک ہی بندے کے ہمراہی میں آئے ہیں اور یہ کہنے کی بات نہیں، نظر آ رہا ہے کہ ہمارا بڑا کون ہے لہٰذا وہ باقی سب کا مان بڑھانے کو ان پر زیادہ توجہ دے رہا ہے۔‘‘

                میں حاجی صاحب کی بات پر کچھ زیادہ دھیان دیئے بغیر اسی کو دیکھتا رہا۔ اس نے جس طرح چائے خود لا کر دی اور چائے دے کر جس طرح سے وہ پیچھے ہٹا، وہ محض کاروباری انداز کی توجہ نہ تھی۔ اس توجہ میں عقیدت کا رنگ شامل تھا اور عقیدت کا رنگ اتنا گہرا اور اتنا واضح ہوتا ہے کہ مجھ ایسا کوڑھ مغز بھی اس رنگ کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔

                تجسس نے میری توجہ اس بندے پر مبذول کروائے رکھی۔ ہم نے چائے کا بل مانگا تو اس نے انکار کر دیا:

                ’’یہ تو میرے نصیب ہیں کہ آپ نے غلام کو یہ اعزاز بخشا کہ مجھ ناچیز کے ہاں آئے۔ میری اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو گی کہ ایک اللہ والے نے اپنے دوستوں کے ہمراہ مجھ سے چائے پی۔ آخرت میں میری نجات ہو گئی۔‘‘

                میں بالکل ہی چکرا کر رہ گیا۔ اس بندے نے صرف ایک فرمائش کی۔ وہ مخاطب تھا حاجی صاحب سے لیکن اس کی نظریں حضور پر چپکی ہوئی تھیں:

                ’’آپ میرے لئے اپنے پیر و مرشد سے دعا کروا دیں۔‘‘

                حاجی صاحب نے اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں باقاعدہ عرض کی:

                ’’حضور ان کے لئے دعا فرمائیں۔‘‘

                میرا مراد اٹھ کر ہوٹل کے کاؤنٹر کے قریب گیا۔ ہم میں سے کچھ گاڑیوں میں بیٹھ چکے تھے، کچھ ان کے پیچھے کھڑے تھے۔ انہوں نے وہیں کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کئے۔ دعا کی۔ سب نے اس ہوٹل والے کا شکریہ ادا کیا اور جا کر گاڑیوں میں بیٹھنے لگے۔ میں پیچھے رہ گیا۔ میں نے ہوٹل والے سے پوچھ ہی لیا:

                ’’آپ کو یہ اندازہ کیسے ہو جاتا ہے کہ کون سا بندہ اس قابل ہے کہ اس سے دعا کے لئے کہنا ہے؟‘‘

                اس کا جواب نہ تو کسی فلسفی کا جواب تھا اور نہ اس میں کوئی انکشاف۔ اس نے صرف اتنا کہا:

                ’’صاحب ہمیں کیا پتہ یہ تو اللہ نے میرے دل میں ڈال دیا کہ ان صاحب سے دعا کروا لے۔‘‘

                جب میں سلسلہ عالیہ عظیمیہ میں داخل ہوا تو مرشد کریم نے خالد نیاز صاحب کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ایک کام کے سلسلے میں مجھ سے ملا کریں۔ اس دوران خالد نیاز صاحب نے مجھے بہت سی باتوں سے آگاہ کیا۔ ایک بار انہوں نے مرشد کریم کے حوالے سے بتایا کہ جب بندہ اللہ سے پیار کرتا ہے تو اللہ اس کے پیار کو آزمانے کو اسے آزمائشوں میں ڈالتا ہے اور جب بندے کو اللہ پیار کرتا ہے تو اس کی بابت وہ فرشتوں کو مطلع کر دیتا ہے کہ فلاں بندہ میرا محبوب ہے۔ فرشتے یہ اطلاع پا کر آسمانوں میں منادی کر دیتے ہیں کہ فلاں بندے کو اللہ نے اپنا محبوب قرار دے دیا ہے۔ یہ منادی سن کر ملائکہ عنصری لوگوں کے دلوں میں اس بندے کی محبت ڈال دیتے ہیں۔ اس محبت ہی کے زیر اثر لوگ اس بندے کو دیکھتے ہیں تو ان کے دل اس کی طرف کھنچتے ہیں اور ان کے دلوں میں اس بندے کے لئے پیار جاگ اٹھتا ہے۔

                میں گاڑی میں بیٹھا۔ جذبات کی امڈتی لہروں میں محبت اور تشکر کے رنگوں کی آمیزش کا منظر دیکھتا رہا۔ میں مرشد کریم کو دیکھتا تو دل میں ان کی محبت کی کشش پاتا اور اس کشش کو دیکھتا تو ایک احساس تشکر اپنے اندر ابھرتا پاتا۔ اللہ تیرا شکر کہ آج تو نے ہمیں بھی اللہ والوں کے دوستوں میں شامل کیا۔ یہ ایک اعزاز تھا۔ ایک اعزاز ہے اور اعزاز رہے گا۔ اس پر ہمیں ناز ہے اور ناز رہے گا۔

                رات مراقبہ ہال میں کھانے کے بعد باتیں ہو رہی تھیں۔ سب اپنے مراد کے ارد گرد جمع ان کی قربت میں سرشار سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک صاحب آئے۔ کھسکتے، سرکتے وہ مرشد کریم کے قریب آ گئے۔ ہم سمجھے انہوں نے کوئی ذاتی بات کہنی ہے، اس لئے ان کو جگہ دیتے رہے۔ انہوں نے حضور کے کان میں کچھ کہا۔ انہوں نے سر ہلایا اور انہوں نے انہیں دبانا شروع کر دیا۔ ایک دو منٹ دبا کر انہوں نے ان سے سیدھا ہو کر لیٹنے کی فرمائش کی۔ میں نے سوچا کہ جس بندے سے بات کرنے میں ہم ہمت مجتمع کرتے رہ جاتے ہیں اور اکثر بات حلق میں اٹک کر رہ جاتی ہے اس آدمی کی دیدہ دلیری تو دیکھئے کہ آ کر کس طرح سے اس نے سیدھے سیدھے ٹانگ پکڑ لی اور اب بیٹھا کس مزے سے ان کو چھو رہا ہے ، ان کو دبا رہا ہے۔ یہ ہمت ہمیں تو کبھی نہیں ہوئی۔ ہم کہیں بھی تو منع کر دیا جاتا ہے کہ آپ میری عادت خراب کر دیں گے۔ میں عادی ہو گیا تو کیا کروں گا اور اب یہ آدمی کس مزے سے لگا ہوا ہے ان کو دبانے میں۔ اس کے یہ کہنے پر کہ آپ سیدھے ہو کر لیٹ جائیں۔ انہوں نے کہا:

                ’’بس اب میں اپنے کمرے میں جاتا ہوں، آپ کا شکریہ۔ اب میں سوؤں گا۔‘‘

                یہ کہہ کر حضور اٹھ کر چلے گئے۔ ان صاحب نے کھسک کر جگہ بنائی اور ممتاز علی سے پوچھا:

                ’’اگر اجازت ہو تو میں آپ کو دبا دوں؟‘‘

                نہ جانے کیوں ممتاز علی ہنس پڑے اور کہا:

                ’’میں نے کبھی دبوایا نہیں، مجھے گدگدی ہوتی ہے۔‘‘

                ان صاحب نے ایک دو اور بھائیوں کو دبانے کی فرمائش کی مگر سب نے منع کر دیا۔ شاید اس لئے کہ وہ بندہ جو ان کے مرشد کو دبا چکا ہے اس سے خدمت لینا کہیں گستاخی ہی نہ ہو۔

                اس آدمی سے گپ شپ ہوئی پتہ چلا کہ وہ مراقبہ ہال کے ساتھ بنے ہوئے گھر میں رہتا ہے اور یوں ہمارا ہمسایہ ہے۔ بیوی اس کی لڑاکا ہے۔ دو بچیاں ہیں۔ روزگار نہیں ہے، اس نے جب سنا کہ بڑے پیرصاحب آئے ہیں تو یہ سوچ کر کہ ان کی خدمت کروں گا، ان سے دعا لوں گا، یہاں آیا تھا۔ کیسی کیسی خواہشات لے کر لوگ اللہ والوں کے ہاں آتے ہیں اور وہ ان کی خواہشات کو کس کس طرح پورا کرتے اور انہیں آسودگیاں بخشتے ہیں۔ میں نے حاجی صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا:

                ’’یہ بڑے پیر صاحب کے نمائندے ہیں، آپ نے ان سے دعا کیوں نہیں کرائی؟‘‘

                اس نے کہا:’’ان کی دعا اپنی جگہ مگر بڑے تو بڑے ہی ہوتے ہیں نا۔‘‘

                کن سادہ اور موثر الفاظ میں وہ ہمیں طریقت اور سلوک کا قاعدہ پڑھانے بیٹھ گیا۔ اللہ اکبر کا بھی تو یہی مفہوم ہے۔ وہ جو سب سے بڑا ہے، سب بڑوں کا بڑا۔ سب کا بڑا۔ دنیا میں ہر شئے کا اپنا مقام اور اپنی اہمیت مگر بڑے کا کیا کہنا۔ بڑا تو آخر بڑا ہی ہوتا ہے نا۔ اس کی بات سن کر بھی یہی بات ذہن میں آئی۔

                ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر ممتاز علی نے سو جانے کو کہا اور دراز ہو گئے۔

٭٭٭٭٭

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔