Topics

درخت کی عمر


                چاندنی رات میں پارک میں داخل ہوئے۔ گیٹ سے داخل ہو کر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے۔ راستے میں دو رویہ پھولوں کے تختے۔ ہم وہاں داخل ہوئے تو حضور آگے تھے۔ فضا میں یکدم پھولوں کی ملی جھلی خوشبو پھیل گئی۔ موتیے کی مہک سب پر بھاری تھی۔ یوں لگا جیسے پھولوں نے میرے مراد کے استقبال کو اپنی خوشبو پھیلا دی ہو۔ اوپر جا کر پورا شہر نظر آیا۔ دور دور تک پہاڑیوں پر روشنیاں بکھری دیکھ کر زمین پر تاروں بھرے آسمان کا خیال آیا۔ کچھ دیر تک اس منظر کا لطف لیا۔ ہوا بالکل ساکت تھی۔ چاند ابھی افق سے زیادہ دور نہیں ابھرا تھا۔ پارک میں آگے دور تک اترائی ہی اترائی تھی۔ یہ پارک کسی ٹیلے پر بنا ہوا تھا۔ مغل طرز تعمیر کے انداز پر بنی ہوئی منزل در منزل سیڑھیوں کے درمیان میں بند فوارے ہم ٹہلتے ہوئے نیچے اترتے چلے گئے۔ گھنٹہ بھر ٹہلنے کے بعد اوپر چوٹی پر ایک کیبن نما ریسٹورنٹ کے سامنے بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ فاروق بیگ صاحب آئس کریم لے آئے۔ مرشد کریم نے دو چار لقمے لے کر باقی چھوڑ دی۔ وہاں بیٹھے بیٹھے ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ اس کی عمر کیا ہو گی؟ چالیس سال، پچاس سال ہم نے اندازے سے کہا۔ فرمایا۔’’ساٹھ کے قریب ہو گی۔ اس کو لگانے والا نہ جانے کب کا یہاں سے اوپر سدھار چکا لیکن یہ درخت یہاں کھڑا ہے۔‘‘

                ذہن ماحول کے سحر سے یک دم آزاد ہو کر اس حقیقت کی تلاش میں مستغرق ہو گیا۔ اس درخت نے یہیں کھڑے کھڑے ساٹھ سال گزار دیئے۔ اس نے کیسے کیسے لوگ یہاں آتے دیکھے ہوں گے۔ درخت کی اوٹ سے ایک نوجوان جوڑا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر آیا۔ یوں لگا جیسے وہ زمین سے اگ رہے ہوں یا طلوع ہو رہے ہوں۔ دونوں ایک دوسرے میں منہمک تھے۔

                ’’یہ اپنی اولاد کے لئے آدم اور حوا ہیں۔‘‘

                میرے ذہن میں سرگوشی سی گونجی اور میرے ذہن میں آدم اور حوا سے متعلق میرے مراد کا سوال تازہ کرتی چلی گئی۔ میں نے اپنے مراد کی طرف دیکھا، وہاں وہی پر سکون مسکراہٹ دیکھ کر میرے جی میں آیا کہ میں کچھ کہوں مگر نہ جانے کیوں ہمت نہ کر سکا۔

                کچھ دیر بیٹھے، پھر اٹھ کر واپسی کے لئے چل دیئے۔ واپس جاتے ہوئے میں اپنے مرشد کریم کے پیچھے تھا۔ وہ جس جس پودے کے پاس سے گزرتے ایسا لگتا کہ پودا ان کی طرف جھکا ہو۔ شاید پاس سے گزرنے پر ہوا کا جھونکا ان پودوں کو ہلا دیتا تھا یا پھر پودے سچ مچ تعظیم کا اظہار کر رہے تھے۔ مرید نے ایک موتیے کے پودے سے کچھ پھول توڑے، جب اس کا مراد گاڑی میں بیٹھ چکا تو اس نے ان کی خدمت میں وہ پھول نذر کئے۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں کو ملا کر ان پھولوں کو قبول کیا، کچھ ان کے ہاتھوں کے بیچ سے گزر کر ان کے دامن میں پہنچ گئے۔ دامن مراد تک رسائی پانے پر مرید نے ان پھولوں کو رشک سے دیکھا، وہ ہنس دیئے۔ میں نے سر جھکایا اور اپنے مراد کے پیچھے گاڑی کی سیٹ پر آ کر بیٹھ گیا۔

                کچھ دیر میر پور کے اندر گھومتے رہے۔ کبھی اس سڑک پر تو کبھی اس گلی میں۔ پھر وہاں سے کاکڑہ ٹاؤن واپس ہو لئے۔ صبح ہماری واپسی ہو گی۔ حاجی صاحب مرشد کریم سے واپسی کے پروگرام کی اجازت لے کر ان کو بتا رہے تھے کہ صبح فلاں بھائی کے ہاں جانا ہے، فلاں صاحب آئیں گے۔ فلاں کے گھر راستے میں رکنا ہے۔ وہ بھی بہت مشتاق ہیں کہ حضور ان کے گھر تشریف لائیں۔ آپ نے کچھ مان لئے، کچھ کو انکار کر دیا کہ وہ تو مراقبہ ہال آئے تھے، ان سے تو میں مل چکا ہوں۔

                صبح ناشتے سے فارغ ہو لئے تو لوگ ملنے آنا شروع ہو گئے۔ راولپنڈی سے شفیق صاحب اپنی بیگم اور بیٹی کے ہمراہ صبح سویرے پہنچ گئے۔ وہ ابا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ قاضی مقصود صاحب اور عثمان صاحب بھی آن پہنچے۔ قاضی صاحب راولپنڈی مراقبہ ہال کے نگران ہیں۔ ان کی آمد پر مجھے لگا اب سچ مچ واپسی ہو گی۔ کشمیر سے واپسی کے تاثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ اداسی سی آ گئی۔ وہاں رہنے سے کچھ انسیت سی ہو گئی تھی۔ میں مراقبہ ہال کے ایک ایک کونے میں گیا۔ واپسی کے سفر کا آغاز ہونے کو تھا۔ اسے یقین تھا کہ اب وہ اپنے مراد کے اتنا قریب نہ رہ سکے گا جتنا اتنے روز سے رہ رہا تھا۔ قاضی مقصود صاحب اسے اپنے اور مرشد کریم کے درمیان آڑتے آتے محسوس ہوئے۔ میں نے سوچا کہ میرا مراد مجھے چھوڑ رہا ہے، میں کیا کروں؟ ایسے کرتا ہوں کہ یہیں رہ جاتا ہوں۔ حضور پنڈی چلے جائیں گے، وہاں بھی تو دور دور سے ہی دیکھوں گا۔ شاید وہ بھی نہ ہو کہ شاید قاضی صاحب حضور کو اپنے گھر ہی لے جائیں۔ دو تین دن بعد جب حضور کا پروگرام پشاور جانے کا ہو گا تو میں پنڈی جا کر حضور کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا۔ مرید انہی اندیشہ ہائے دور دراز میں گرفتار خود سے الجھ رہا تھا۔ ممتاز علی اس کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ سے بے خبر اس سے دریافت کر رہے تھے کہ ہم کس گاڑی میں بیٹھیں گے؟ ہم سامان کہاں رکھیں گے؟ وہ انہیں کیا جواب دیتا؟ یہی کہہ کر رہ گیا کہ دیکھیں حضور کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ فی الحال انتظار کریں۔ کہنے کو تو انتظار کا کہہ رہا تھا مگر انتظار اس سے ہو نہیں پا رہا تھا۔ قاضی صاحب نے اعلان کر دیا کہ ابا ان کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر لیٹ کر جائیں گے اور کوئی دوست گاڑی میں نہیں بیٹھے گا۔ میرے خدشے پھن کاڑھ کر سامنے آنا شروع ہو گئے۔

                کچھ دیر بعد میرا مراد کھلکھلاتی مسکراہٹیں بکھیرتا اپنے کمرے سے باہر آیا۔

                ’’کیوں مقصود صاحب! آپ تو یہیں رہ رہے ہیں نا؟‘‘

                مرید نے مرشد کی آنکھوں میں اپنے لئے ہنسی دیکھی وہ سٹپٹا کر رہ گیا۔ یہ اس کے اندر ہونے والی ڈیبیٹ(Debate) پر طنز کر رہے ہیں۔ اس کی کمزوریوں کا خاکہ اڑا رہے ہیں۔ قاضی صاحب کے بارے میں جذبہ رقابت پر ڈانٹ رہے ہیں۔ اس نے ڈھٹائی سے دانت کوستے ہوئے کہا:

                ’’جی حضور! اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو……؟‘‘

                مسکراہٹ کو قدرے سمیٹتے ہوئے فرمایا:

                ’’آپ قاضی صاحب کے ہمراہ بیٹھیں۔‘‘

                ’’جی۔‘‘

                اب وہ کیا کہتا؟ اس کے پاس کہنے کو رہ ہی کیا گیا تھا۔ انہوں نے اسے کچھ کہنے کے قابل چھوڑا ہی کہاں تھا۔ قاضی صاحب بھی شاید اس جھٹکے کے لئے تیار نہ تھے۔

                آپ یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے مراقبہ ہال کے گیٹ سے گزر کر باہر کھڑی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے۔ ممتاز علی اور میں قاضی صاحب اور عثمان صاحب کے ہمراہ ان کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ روانہ ہوئے ہی تھے کہ ہم سے اگلی گاڑی کو ایک صاحب نے ہاتھ دے کر رکوایا اور ابا سے ملا، ان کے پیر چھوئے اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ قاضی صاحب جز بز ہو رہے تھے۔

                ’’ان کو پتہ بھی ہے کہ ابا کو ایسی حرکتیں پسند نہیں، یہ پھر بھی باز نہیں آتے۔‘‘

                مگر آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ابا اس کے باوجود ان کو برداشت بھی کرتے ہیں۔‘‘

                ممتاز علی نے کہہ کر میری طرف دیکھا۔ مرشد کریم والی گاڑی روانہ ہوئی تو ان صاحب نے ہماری گاڑی کے اندر دیکھا اور ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کر کے پچھلا دروازہ کھول کر ممتاز علی اور مجھ سے ملے۔ ارے یہ تو وہی صاحب ہیں جو گذشتہ رات ابا کو دبا رہے تھے۔ میں قاضی صاحب کے ڈر سے نیچے نہیں اترا اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ان سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو لیا۔ انہوں نے دعا کی فرمائش کی اور دعائیں دیں۔ ہمارے پیچھے پیچھے شفیق صاحب اپنی وین میں آ رہے تھے۔ چار پانچ گاڑیوں کا یہ مختصر سا قافلہ اپنے مرشد کی سربراہی میں اب ایک نئی منزل کی طرف روانہ تھا۔

                ’’حاجی ادریس صاحب بہت اچھے میزبان اور بہت اچھے انچارج ہیں۔‘‘ ممتاز علی صاحب نے تبصرہ کیا۔

                قاضی صاحب نے ’’ہوں‘‘ کہہ کر عثمان صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ سامنے گاڑی کی طرف دیکھتے ہوئے ڈرائیو کر رہے تھے۔ ہم اس گاڑی کو اپنی نگاہوں میں بسائے بیٹھے سفر کر رہے تھے، جس میں ہمارا مراد، ہمارا مرشد بیٹھا تھا۔ گاڑی سڑک پر پھسلتی جا رہی تھی۔ جب کبھی سڑک کے کنارے اگی ہوئی کسی جھاڑی کے پاس سے گزرتی ہوا کے دباؤ سے وہ جھاڑی سڑک کی طرف جھکتی۔ ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے پودے گزرنے والی ہستی کی تعظیم میں کورنش بجا لا رہے ہوں۔

                میر پور خاص پہنچ کر ہم سے اگلی گاڑی ایک گھر میں داخل ہو گئی۔ اچھا خاصا وسیع و عریض گھر تھا۔

                ’’یہ کس کا گھر ہے؟‘‘

                ’’کوئی ڈپٹی سیکرٹری صاحب ہیں۔ ان کے والد صاحب آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔‘‘

                کسی نے مطلع کیا۔ ڈرائنگ روم کے دروازے پر ایک صاحب نفیس واسکٹ سوٹ میں ملبوس استقبال کر رہے تھے۔ ڈرائنگ روم بھر گیا۔ میں نے انہیں دیکھ کر سوچا، انہیں تو میں نے کہیں دیکھا ہے۔ میں نے حاجی ادریس صاحب سے پوچھا کہ یہ صاحب مجھے مانوس سے لگ رہے ہیں۔ انہیں میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ وہ ہنس دیئے۔ ابھی اس دن تو آپ باورچی خانے میں بیٹھے ان صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ یہ شوکت صاحب ہیں۔ شوکت مجید صاحب، ڈپٹی سیکرٹری، یہ فقیر منش آدمی کے بھی کتنے روپ ہوتے ہیں۔ ایک بیوروکریٹ کا یہ روپ بھی ہو سکتا ہے؟ وہ مرشد کریم کو اپنے گھر میں دیکھ کر جس طرح سے نہال ہو رہے تھے، قابل دید تھا۔ مرشد کریم گھر میں اندر زنان خانے میں چلے گئے۔ ہم نے آزادی سے پرتکلف چائے کو بے تکلفی سے اڑایا۔ قاضی صاحب بار بار گھڑی کو دیکھ اور دکھا رہے تھے۔ دیر ہو رہی ہے۔ دیر ہو جائے گی۔ انہیں اندر سے فارغ کریں۔ جلدی کریں۔ ہم ان کی بے تابی کو سمجھ رہے تھے۔ وہ آنے والا ہر لمحہ مرشد کے قرب میں گزارنے کے آرزو مند تھے اور اس میں انہیں کسی اور کی شرکت بھی گوارا نہ تھی۔ یہ بات سمجھ میں آنے پر خود ہمارے اندر سکون اتر گیا۔ اب انہیں بھی موقعہ ملنا چاہئے۔ اب ان کی باری تھی۔ ان کی فیڈنگ(Feeding) کے دوران ہمیں مخل ہونے کا کوئی حق نہیں تھا۔ جب وہ ہماری تنہائیوں میں مخل نہیں ہوئے تھے تو ہمیں بھی ان کی خلوت کا لحاظ رکھنا چاہئے تھا۔ میں ان ہی سوچوں میں غلطاں قاضی صاحب کو دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے مجھے آنکھ ماری۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے۔ کوئی جملہ کہہ کر انہوں نے آنکھ ماری تھی۔ میں نے جملہ تو سنا نہیں۔ آنکھ مارنے پر البتہ چونک سا گیا۔ کیا قاضی صاحب بھی سمجھ گئے ہیں کہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔ ارے نہیں بھئی، یہ تو اتفاق ہی رہا ہو گا، میں نے خود کو تسلی دی۔

                مرشد کریم نے سب سے الوداعی ملاقات کی۔ ہمارا سامان قاضی صاحب کی گاڑی سے شفیق صاحب کی گاڑی میں منتقل ہو گیا۔ مرشد کریم قاضی صاحب کی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے۔ میں اور ممتاز علی شفیق صاحب کی گاڑی میں۔ ایک، دو بھائی جو پنڈی مراقبہ ہال سے متعلق تھے وہ بھی اسی گاڑی میں آ گئے تھے۔ راستے میں شفیق صاحب سے یک دم جملے بازی شروع ہو گئی۔ وہ عجیب باغ و بہار طبیعت رکھتے ہیں۔ ان کی بیگم اور ان کی بیٹی حمدہ شفیق نے شفیق صاحب سے ہماری بے تکلفی کا برا نہیں منایا تو ہمارے حوصلے اور بھی بڑھ گئے۔ راستے بھر ان سے خوب زوردار چونچیں ہوئیں۔ شفیق صاحب نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لگتا ہی نہ تھا کہ ہم آج پہلی بار ملے ہیں۔ یوں جملے بازی ہو رہی تھی جیسے ہم لنگوٹئے رہے ہوں۔ راستے میں ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اگلی گاڑی مع مرشد کریم دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی۔ قاضی صاحب موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرشد کریم کو لے کر تیزی سے غائب ہو چکے تھے۔

٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔