Topics

محبت ،عشق اور عقیدت


                صبح جب کمرے سے باہر آئے تو فضا کچھ دھلی دھلی سی لگی۔ رات بارش ہوئی تھی مگر بات بوندا باندی تک ہی رہی ہو گی کیونکہ حاجی صاحب کہہ رہے تھے کہ اتنی بارش سے تو سڑک پر چھڑکاؤ بھی نہیں ہوتا۔

                آج کا پروگرام پکنک پر جانے کا تھا۔ ابھی ناشتہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ پتہ چلا کہ اقبال قریشی صاحب، سمیع اللہ اور شیر محمد صاحب کے ہمراہ پشاور سے آئے ہیں۔ سب سے ملنے ملانے کے بعد وہ مرشد کریم سے ملے۔ مرشد کو دیکھ کر ان کے دلوں کی دھڑکنوں کا کیا عالم ہوا ہو گا یہ تو وہی جانتے ہوں گے مگر میں نے ان کے لرزتے ہونٹوں سے ان کے اندر ہونے والی کھدبد کا اندازہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ پشاور سے ساری رات کا سفر کر کے صرف اپنے مرشد کا دیدار کرنے کاکڑہ ٹاؤن آئے تھے۔ ایسی کیفیت عشق کے اولین دور کی بے تابیوں کی عکاس ہوا کرتی ہے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ہم سب پکنک پر جا رہے ہیں اور وہ بھی ہمارے ساتھ جائیں گے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔

                ایک بار مرشد کریم نے ایک خط میں منصور الحسن صاحب کو لکھا تھا:

                ’’محبت، عشق اور عقیدت تین رخ ہیں جو ہر انسان کے اندر رواں دواں رہتے ہیں۔ کبھی یہ رخ تالاب کی صورت میں ہوتے ہیں کبھی ندی نالوں آبشاروں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور کبھی سمندر بن جاتے ہیں اور جب یہ رخ سمندر بنتے ہیں تو بندہ عشق سے گزر کر عقیدت کے دائرے میں آ جاتا ہے۔‘‘

                اس بات کو پڑھنے سے پہلے تک میرے ذہن میں یہ ترتیب عقیدت محبت اور عشق تھی۔ یعنی میں سمجھتا تھا کہ کشش کے تحت عقیدت پیدا ہو کر محبت میں ڈھل جاتی ہے اور محبت رفتہ رفتہ بڑھ کر عشق کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ جس روز میں نے منصور بھائی کے نام خط میں یہ بات پڑھی میرے ذہن میں کئی فلسفے تلپٹ ہو گئے۔ کئی نئی باتیں روشن ہو گئیں۔ کسی بات کا صحیح ادراک ہو جائے تو یوں جانیئے کہ عطائے نعمت ہو گئی۔ انعام نصیب ہو گیا۔ سارا کھیل ہی افکار کی ترتیب کا ہے۔ یہ ترتیب بگڑ جائے تو بندہ راہ گم کردہ اور بھٹکا ہوا کہلاتا ہے اور اگر یہ ترتیب سنور جائے تو بندہ بندہ بن جاتا ہے۔ ترتیب میں حسن اور توازن آ جائے تو بندہ نکھر جاتا ہے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔