Topics
پشاور مراقبہ ہال میں
داخلے کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔ گاڑی میں سے مرشد کریم اترے تو دو رویہ کھڑے بھائیوں
نے باری باری ان کو ہار پہنائے۔ پس منظر میں ٹیپ ریکارڈ پر ’’میرا پیا گھر آیا‘‘
کا گیت بج رہا تھا۔ ماحول میں یکدم محبت ہی محبت گھل گئی۔ پھولوں کی پتیاں نچھاور
ہوئیں اور آپ نے پشاور کے نو تعمیر مراقبہ ہال کی عمارت میں قدم رکھا۔ ’’جیسے گڑیا
کا گھر ہو‘‘ بعد میں تبصرہ فرمایا۔
نیاز احمد عظیمی صاحب نگران پشاور مراقبہ ہال کی طبیعت میں گداز بہت ہے۔ ان کے
بارے میں مرشد کریم نے فرمایا تھا کہ وہ تو عاشق ہیں۔ ہر وقت تصویریں اتارتے رہتے
ہیں۔ ایک موقعے پر فرمایا کہ آپ نے دیکھا، ان کے چہرے پر کس قدر معصومیت ہے۔ نیاز
صاحب جب مرشد کریم سے کوئی بات سن رہے ہوتے ہیں تو میں نے اکثر ان کے چہرے پر
دھواں پھیلتے دیکھا ہے۔ یہ دھواں کبھی کبھی بادل بن جاتا ہے اور کبھی تو آنکھوں
کے راستے بہہ نکلتا ہے۔ مرشد کریم بھی ان کا بہت خیال رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔