Topics

مقام محمود


                مقام محمود کائنات اور اللہ کے درمیان ایک پردہ ہے، یہ پردہ حضورﷺ کی ذات اقدس ہے۔ جب اللہ کن فرماتے ہیں اور تخلیقی لہریں اللہ کے ذہن سے نکل کر مقام محمود پر آتی ہیں تو آپﷺ کی رحمت سے ٹھنڈی ہو کر کائنات میں پھیل جاتی ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ حضورﷺ کے امتی ہیں۔ ہم اتنے مقرب بندےﷺ کی امت ہیں۔ جس سے اللہ نے قربت میں کوئی فاصلہ نہیں رکھا۔ قاب قوسین کہہ کر خالق اور مخلوق کی حد بندی اور رشتے کو الگ الگ کر دیا۔ یعنی یوں تو فاصلہ نہیں رہا مگر خالق خالق رہا اور مخلوق مخلوق رہی۔ باپ بیٹے کو سینے سے لگا کر بھینچنے کے باوجود باپ رہا اور بیٹا بیٹا رہا۔ یعنی اللہ نے اپنے بندے سے پیار کیا۔ اپنے سینے سے لگایا، اس سے راز و نیاز کیا، پھر کہا یہ کوئی خواب و خیال کی بات نہیں۔ اس نے جو دیکھا سچ دیکھا۔ ہم اتنے مقرب بندےﷺ کی امت ہونے کے باوجود……جس کی وجہ سے ساری کائنات تخلیق ہوئی……ہر وہ کام کرتے ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔ یہ پٹھان ہے۔ یہ سندھی ہے۔ یہ پنڈی کا ہے۔ یہ پشاور کا ہے۔ ایک کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کا گلا کاٹ رہا ہے۔ حکم یہ ہے کہ آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ لیکن ہم میں سے کوئی بریلوی ہے، کوئی دیو بندی۔ ہم نہ اللہ کی بات مانتے ہیں اور نہ رسول کی۔ ہم ہر وہ بات کرتے ہیں جو عملاً حضورﷺ کو ناپسند ہے۔

                اپنا انگلینڈ کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک انگریز آیا اور اس نے کہا:

                ’’میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں، مگر آپ یہ بتائیں کہ آپ مجھے کون سا مسلمان بنائیں گے؟‘‘

                فرمایا:’’کیا یہ باتیں حضور اکرمﷺ کے مزاج پر گراں نہ گزرتی ہوں گی؟‘‘

                ہمارے اسلاف جب تک نور نبوت سے سیراب رہے، وہ فتوحات پہ قادر رہے اور جب سے مسلمانوں کو موت سے خوف آنے لگا یعنی وہ اللہ کے پاس جانے سے ڈرنے لگے، وہ اللہ جس نے آپ کو پیدا کیا، زمین کو دسترخوان بنا دیا، اس اللہ سے ملنے کا وقت آتا ہے تو ہم ڈرنے لگتے ہیں، ہم تباہ نہیں ہونگے تو کیا ہونگے؟ آپ موت سے کتنا بھاگیں گے؟ یہ سسٹم کا حصہ ہے، جو پیدا ہوا ہے اس کو مرنا تو ضرور ہے۔ ہم قرآن کی آیات کو بھی نہیں پڑھتے۔ پڑھتے ہیں تو غور نہیں کرتے۔ روح کی تلاش نہیں کرتے۔

                تمام روحانی سلسلوں کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کسی طرح اپنی روح سے واقف ہو جائے اور ایسی نمازیں نہ پڑھے جو فویل المصلین کے ضمن میں آتی ہوں اور ہمارے لئے ہلاکت کا سبب بنتی ہوں۔ ہم کیوں وظائف اور اذکار کے باوجود مطمئن نہیں۔ کیوں ہمارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوتا، خوف اور غم سے نجات کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی روح سے واقف ہوں۔

                روح سے واقفیت کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر اتر جائیں اور اپنے اندر اترنے کے لئے ہمیں مراقبہ کرنا ہوتا ہے۔ مراقبہ کرنے کا مطلب ہے بندہ اپنے اندر ڈوب جائے۔ نماز جسمانی سعادت ہے، اس سعادت کے ساتھ ساتھ قلوب میں ایمان داخل ہونا بھی ضروری ہے۔ ایمان اس لئے ضروری ہے کہ جسمانی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی۔ نور اول، باعث تخلیق کائناتﷺ کو نہیں دیکھ سکتی۔ انﷺ کو دیکھنے کے لئے ہمیں روحانی آنکھ کا استعمال کرنا آنا لازم ہے۔ اس کے لئے ہمیں صرف اتنا کرنا ہے کہ ہم اپنے اندر دیکھیں۔ اندر دیکھیں گے تو اس روح کو دیکھیں گے جس روح نے اللہ کو دیکھا ہوا ہے۔

                آپ پانچ ہزار واٹ کا بلب دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کی پریکٹس چاہئے، پہلی دفعہ دیکھنے پر اگر حضور موسیٰ علیہ السلام برداشت نہیں کر سکے تو اس کا یہ مطلب کب ہوا کہ دوسری دفعہ بعد میں بھی انہوں نے نہیں دیکھا۔ نہ دیکھا ہوتا تو وہ اللہ سے ہم کلام کیسے ہوتے؟ توریت کیسے نازل ہوئی؟

                انسان کا مادی جسم روح کے بغیر مردہ جسم ہے۔ روح کا جسم ہی اصل ہے۔ یہ مادی جسم اس کی نقل ہے۔ اصل نہ ہو تو نہ بیوی ہو سکتی ہے، نہ بچے اور نہ ہی کوئی رشتہ۔ انسان نقل کو ہی سب کچھ سمجھ رہا ہے اور اس نے اصل کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ جب آپ نے نقل کو اصل سمجھ لیا ہے تو آپ پریشان ہی ہوں گے۔ نقل کی خاطر ہم نے اصل کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ یہ جسمانی گوشت پوست کے بدن اور مادیت کو اصل سمجھنے والے ہی اصل گھاٹے اور خسارے میں ہیں۔ نقل کو نقل رہنے دیں۔ اصل کو پہچانیں۔‘‘

٭٭٭٭٭

 

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔