Topics

آدم وحوا کی بابت


                حاجی صاحب کو مخاطب کر کے سب کو سناتے ہوئے فرمایا۔

                ’’ہمیں آدم اور حوا کی بابت بتایا جاتا ہے کہ آدم لنکا میں اتارے گئے تھے اور حوا جدہ میں۔ جدہ کا نام ہی جد یعنی اجداد سے بنا ہے۔ اماں حوا کی قبر جدہ ہی میں تو بتاتے ہیں۔ اب ان دونوں کے درمیاں اتنا تو مکانی فاصلہ ہوا۔ کہتے ہیں وہ پانچ سو سال تک ایک دوسرے کو تلاش کرتے رہے۔ اب اگر ان کی عمریں ہزار برس ہوں تو پانچ سو سال یہ نکال دیں۔ باقی عمر سے بلوغت، سن یاس اور بڑھاپا نکال کر اندازہ کریں انہوں نے کتنے سال اولاد پیدا کی ہو گی اور پھر یہ اولاد آدم سائیبیریا، افریقہ، چین اور جاپان وغیرہ جیسی جگہوں پر کہاں سے آ گئی۔ اگر آدمی جدہ سے ہی نکلا تو آخر اسے کیا پڑی تھی کہ وہ سائیبیریا میں جا گھسا۔ وہاں کے موسمی حالات اتنے مختلف ہیں کہ عرب علاقوں کا آدمی وہاں زندہ رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ آج بھی ہم اگر وہاں جائیں تو نہیں رہ سکیں گے۔ اچھا اب آپ یہ دیکھیں کیکر کا درخت اب کراچی میں بھی ہے۔ یہاں یہ سامنے (کشمیر میں) بھی ہے اور اسی طرح انگلینڈ میں بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بادام کا درخت بھی دنیا کے ہر حصے اور ہر خطے میں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ بادام کا پہلا بیج، کیکر کا پہلا درخت، پہلا آدم کہاں سے آیا اور زمین میں کس طرح پھیلا۔ سوچیں اور بہت سوچ کر جواب دیں۔ بھئی یہ بہت ضروری سوال ہے۔ حاجی صاحب میرے یہاں سے واپس جانے سے پیشتر مجھے اس سوال کا جواب چاہئے۔ آپ سب مل کر سر لڑائیں۔ آپ سب سوچیں اس پر ذرا رک کر بات کریں۔ دیکھیں تو سہی اصل بات کیا ہے۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔