Topics
ایک بار کراچی مراقبہ ہال میں مرشد کریم مراقبہ ہال سے باہر آئے۔ مسجد کی طرف
جاتے ہوئے ایک جگہ رکے۔ راستے میں گرے ہوئے سگریٹ کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور اپنے
ساتھ جانے والے کو دکھا کر کہا:
’’مجھے یہ چیز بہت بری لگتی ہے۔‘‘
یہ انداز تربیت تھا۔ یہ نہیں فرمایا کہ سگریٹ کے ٹوٹے یہاں نہیں گرانے چاہئیں۔
اس پر کوئی لیکچر بھی نہیں دیا کہ لوگوں کو احساس نہیں۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ یہ ایک
بری بات ہے۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ کراچی مراقبہ ہال کے اندر ہی نہیں باہر
بھی صفائی کا ایک اعلیٰ معیار قائم رہتا ہے۔ یہ حضور کی تربیت ہی کا اعجاز ہے کہ
مزاج میں ترتیب، سلیقہ اور صفائی بھی شامل ہوتی چلی جا رہی ہے اور اب یہاں پارک میں
بھی جہاں پکنک منا کر ہم واپس جا رہے تھے، اپنی آمد کے نشان بری طرح چھوڑنے کی
بجائے وہاں سے خوشگوار یادیں سمیٹ کر جا رہے تھے۔
عظمتوں کا حامل ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ انسان صرف بڑی بڑی باتیں ہی کرے،
بڑے بڑے کارنامے ہی سرانجام دے۔ اس سے آدمی ہیرو تو ضرور بن جاتا ہے، عظیم نہیں۔
عظیم اور بڑا بننے کے لئے بڑی بڑی باتوں کی بجائے چھوٹی چھوٹی باتوں کو سیدھا
کرنا، ان کو اچھی طرح سر انجام دینا بھی ضروری ہے۔ زندگی کو اچھی طرح بسر کرنا ہی
حقیقی عظمت ہے۔ اپنے مراد کی ہمراہی میں قدم اٹھانے سے پیشتر میرے انداز فکر میں یہی
تھا کہ عظمت کا تعلق بڑائی سے ہے اور بڑائی کے لئے بڑے بڑے کاموں کا کیا جانا ضروری
ہے۔ لیکن اب اسے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ نہ کوئی کام بڑا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی
کام چھوٹا۔ ہر کام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ ہر کام کو اچھی طرح کرنا اس کو بہ احسن
و کمال سر انجام دینا ہی بڑائی ہے اور یہی حقیقی عظمت ہے۔
ممتاز علی اور میں اعجاز صاحب کے ہمراہ سہالہ روڈ پر ان کے گھر گئے۔ ان کے گھر
میں روحانی لائبریری قائم دیکھ کر مجھے بہت خوشگوار لگا۔ انہوں نے نہایت شوق سے اس
علمی مشن کو پھیلانے کی خاطر اپنے گھر میں یہ لائبریری بنائی ہوئی تھی۔ وہ بتا رہے
تھے کہ وہ خود تو زیادہ تر مصروف ہی رہتے ہیں اور ان کے بچے اور بیوی اس لائبریری
کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
’’گھر میں لائبریری ہونے سے بچوں نے یہ تمام کتب پڑھ لی ہیں۔‘‘
ان کے اس اطلاع دینے
پر ممتاز علی نے تبصرہ کیا:
’’یہ مرشد کریم ہی کا اعجاز ہے کہ ان بچوں میں علم کا ذوق پیدا فرما دیا ہے۔‘‘
ملک میں کتب بینی کے ذوق کی جس طرح سے جدید دور کے تقاضوں کے نام پر بیخ کنی کی
گئی ہے، اس ذوق کی آبیاری کرنے کو کوئی شکوہ سنج تقریریں نہیں کی گئیں۔ اخبارات میں
لائبریریوں کے قیام کی ضرورت پر کوئی لمبے چوڑے بیانات نہیں دیئے، ریڈیو، ٹی وی پر
کوئی مذاکرہ تک نہیں کرایا۔ نہایت سادگی سے چند دوستوں کو آمادہ کیا کہ وہ ایک
جگہ لے کر وہاں بیس پچاس کتب رکھ کر لائبریری کا آغاز کر دیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ
اللہ اس میں خود ہی برکت دے گا۔ اگر کسی نے کتب کی خریداری میں اعانت طلب کی تو
اپنی کتب عطیہ کر دیں یا نصف قیمت پر مہیا کروا دیں۔
’’اندھیروں کو کوسنے سے تو یہی بہتر ہے کہ انسان ایک شمع روشن کر دے۔‘‘
یہ ایک چینی کہاوت کا مفہوم ہے۔ یوں لگا کہ اس کی عملی صورت کا مشاہدہ ہو رہا
ہے۔
وہاں سے واپسی پر طبیعت میں چہل بلکہ چلبلاہٹ کی کیفیت تھی۔ راستے میں انہوں
نے سڑک سے دور اندھیرے میں اشارہ کر کے بتایا کہ پنڈی مراقبہ ہال کے لئے زمین اس
جگہ پر لی گئی ہے۔ ہمیں کچھ نظر تو آیا نہیں اس خوشی میں جو وہ محسوس کر رہے تھے،
وہ مان جس کے تحت ہو بات کر رہے تھے، اس کو بڑھانے کے لئے ہم نے اظہار مسرت کیا کہ
اب پنڈی والے اپنا مراقبہ ہال خود تعمیر کریں گے۔ تعمیری سوچوں کی ایک صورت یہ بھی
ہے کہ انسان اپنے ارد گرد بسنے والوں کو ہی نہیں بلکہ ملنے جلنے اور دوست احباب میں
بھی ایک ذوق تعمیر ابھار دے۔ وہی وقت جو انسان بہت سی باتوں کی آرزو میں کڑھتے
ہوئے گزار دیتا ہے، کچھ تعمیر کرنے کی فکر میں گزارے تو ہر دو طرح کے گزرے ہوئے
اوقات کا موازنہ یہ سمجھانے کو بہت کافی رہتا ہے کہ دوسری صورت میں بہتری ہی بہتری
ہے۔
گاڑی رکی تو ہم کتنی ہی دیر تک گاڑی ہی میں بیٹھے باتیں کرتے رہے، وہ باتیں جن
میں خوشگوار یادیں تھیں۔ وہ باتیں جن کو ہم نے اپنے سینوں میں سمیٹا ہوا تھا اور ایک
دوسرے کو سنا کر محظوظ ہو رہے تھے۔ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اعجاز صاحب سے
ہماری ملاقات محض دو تین گھنٹے پہلے ہوئی ہے۔ ان کا پیار ہمارے لئے ہوتے ہوئے بھی
ہمارے لئے نہیں بلکہ ہمارے اور ان کے اپنے مراد کے لئے تھا۔ ہمیں بھی وہ اسی حوالے
سے نہ تو غیر لگ رہے تھے اور نہ ہی اجنبی۔ ہمیں ہم دل اور ہم ذہن بنانے میں جس کا
ہاتھ تھا، اس کا حوالہ اتنا مضبوط ار اتنا پائیدار تھا کہ ہر وہ شخص جو میرے مراد
سے وابستہ تھا، میرے لئے نہ تو اجنبی رہا تھا اور نہ ہی غیر۔ اسی بات کو خود میرے
مراد نے کچھ یوں بیان کیا تھا کہ آپ سب میری روحانی اولاد ہونے کے ناتے آپس میں
بہن بھائی ہیں۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔