Topics

آپ بھولا بھنڈاری ہیں


                ہم باورچی خانے میں بیٹھے تھے کہ حضور وہیں آ گئے۔ اس وقت میں روٹیاں کاٹ رہا تھا۔

                ’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘

                عرض کی:’’روٹیاں تیار کر رہا ہوں۔‘‘

                فرمایا:’’روٹیاں بانٹنے والے کو لانگری کہتے ہیں لیکن ادھر انڈیا میں ہمارے یہاں اس کو بھولا بھنڈاری کہتے ہیں۔‘‘

                پھر مجھے مخاطب ہو کر فرمایا:

                ’’آپ بھولا بھنڈاری ہیں!‘‘

                اس کہنے میں کچھ ایسی بات تھی کہ جی باغ باغ ہو گیا۔

                فرمایا:’’لگتا ہے یہاں وقت ٹھہر گیا ہے۔ وقت کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ وقت تو وہی رہتا ہے۔ ذہن میں مصروفیت نہ ہونے کے باعث یوں لگتا ہے کہ وقت رک گیا ہے۔ قید تنہائی میں بھی تو یہی ہوتا ہے۔ وہاں اوپر بھی جن کے پاس کام نہیں ہوتا وہ لڑتے ہیں۔ ڈنڈے چلاتے ہیں۔ بڑے حضرت کے دو نواسے تھے وہ انہی کو پڑھاتے رہتے ہیں۔ تکوین والوں کو تو خیر بالکل بھی فرصت نہیں ہوتی۔ عام آدمی کبھی ادھر بیٹھ گیا۔ کبھی ادھر بیٹھ گیا۔ کبھی فرشتوں سے گپ شپ ہو گئی۔ کبھی اولیاء کرامؒ کی صحبت میں بیٹھ گیا۔ وہ لوگ جو جنگل میں تنہائی کی زندگی بسر کرتے ہیں ان کی مصروفیات اگر تو ایسی ہو گئیں کہ وہ اللہ کے چکر میں پڑ گئے تو ٹھیک ورنہ گئے کام سے۔ یہ جو نماز روزے کی مصروفیت ہے یہ بھی ایک مصروفیت ہی ہے۔ ذہن میں مصروفیت ہو تو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ دھیان وقت کے یونٹوں سے ہٹا رہتا ہے۔‘‘

                باورچی خانے میں بیٹھے کھانا پکاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، ساتھ ساتھ مشورے بھی دیئے جا رہے ہیں۔

                ’’اس میں اب سبزی ڈال دیں۔ یہ چیز دھو لیں۔ اب ڈھکن رکھ دیں۔ چمچ ہلائیں۔ اس کو چکھ کر دیکھ لیں نا۔‘‘

                اور اسرار و رموز کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ کشمیر کے لوگوں کی عادات اور سادہ مزاج پر بھی بات ہو رہی ہے۔

                ’’شہری زندگی کی نسبت ان لوگوں میں الجھن اور پریشانیاں کم ہوتی ہیں۔ وہ جفاکش زیادہ ہیں۔‘‘ اگلے روز ہم نے پکنک پر جانا تھا۔ اس کے انتظامات کی بابت دریافت کیا۔

                ’’وہیں جا کر پکائیں گے، پکا کر ساتھ رکھنے کے بجائے یہ بہتر رہے گا۔‘‘ ساتھ ساتھ سوالوں کے جواب میں ارشاد فرما رہے ہیں۔ عرض کیا:

                ’’حضور کیا وجہ ہے کہ اسرار و رموز کو کوئی بھی واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان نہیں کرتا بلکہ اشارے کنایوں میں بیان کرتے ہیں۔ سمجھ میں آ گئے تو ٹھیک، نہ آئے تو نہ سہی۔ بہت سر مارنا پڑتا ہے۔‘‘

                فرمایا:’’جی ہاں۔ قدر و قیمت بھی تو اس کی ہوتی ہے۔‘‘

                پھر بتایا کہ’’زیادہ صاف بات کریں تو لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ اب اگر ایک آدمی ی منزل ہی جنت ہے، جب اس نے جنت دیکھ لی تو وہ بھلا کیوں رکا رہے گا۔ بھئی دیکھیں نا۔ ایک آدمی کو ایک عورت سے شادی کرنا ہے۔ وہ ایک پہاڑ پر رہتی ہے۔ وہ اس کی خاطر روزانہ بلاناغہ پہاڑ کی چوٹی پر جاتا ہے۔ جب شادی ہو جاتی ہے تو اب وہ پہاڑ کی چوٹی پر کیا لینے جائے گا۔ اس کا جو مقصد تھا وہ تو پورا ہو گیا نا۔‘‘

                یہ بھی بتایا کہ ’’جب ذہن خیال میں معنی پہنانے سے قاصر ہو جاتا ہے تو انسان کومہ میں چلا جاتا ہے اور جب ذہن خیال وصول کرنے کے قابل نہیں رہتا تو یہ حالت موت کہلاتی ہے۔‘‘

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔