Topics

عالمین کے خالق


                شام کو حاضرین سے خطاب کرنے کے لئے اٹھ کر کمرے سے باہر آئے اور لان میں حاضرین سے ملتے ہوئے اپنے لئے مختص کی گئی جگہ پر سر جھکا کر بیٹھ گئے۔ میں برآمدے میں کھڑا تھا۔ ایک بچی اپنی ماں کی گود میں مچل رہی تھی۔ ماں اس کو دلاسہ دے رہی تھی۔ وہ ضد پر اتری ہوئی تھی۔ کسی نے دریافت کیا کہ بچی کیوں مچل رہی ہے؟ معلوم ہوا کہ وہ اللہ میاں سے ملنے کی فرمائش کر رہی ہے۔ ماں اس کی فرمائش پر دہلتے دل سے اس کو بہلا رہی تھی:

                ’’نہیں، ایسا نہیں کہتے۔‘‘

                بچی کی ماں اس کو بہلانے کو اس کو گود میں لے کر گیٹ کی طرف روانہ ہوئی۔ بچی نے کلکاری ماری:

                ’’وہ سامنے بیٹھے ہیں۔‘‘

                اس نے اپنی بانہیں لان کے دوسرے سرے پر سر جھکا کے بیٹھے ہوئے اللہ کے بندے کی طرف پھیلاتے ہوئے کہا:

                ’’میں نے ان سے ملنا ہے۔ ان کے پاس جانا ہے۔‘‘

                ماں نے یہی کہہ کر اس کو بہلا دیا ہو گا۔ لوگ بیٹھے ہیں۔ وہ چلے جائیں تو مل لینا۔ وہاں بیٹھے کوئی لوگوں نے پلٹ کر اس بچی کو دیکھا۔ مائیک پر اعلان ہوا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد نعت پڑھی گئی اور پھر مرشد کریم کا تعارف کروایا گیا اور پھر انہیں دعوت خطاب و اظہار خیال دے کر مائیک ان کے حوالے کر دیا گیا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت اپنے مخصوص دھیمے اور سریلے انداز میں کر کے اس کا ترجمہ ارشاد فرما کر بات کا آغاز کیا اور بتایا کہ:

                ’’اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا۔ نہ صرف پیدا کیا بلکہ ان کے لئے وسائل بھی پیدا کئے۔ مثلاً جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں کے دل میں ایسی ممتا ڈال دی کہ اگر وہ ممتا نہ ہو تو بچہ زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے، توں توں ماں باپ کے دل میں اس کے لئے توجہ بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ اب بچوں کی تربیت اور تعلیم کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ پھر ماں باپ کے دل میں اللہ یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ ان کی شادی ہو۔ ماں باپ بچے کی اس طرح خدمت کرتے ہیں کہ ان کی اپنی ذات بیچ میں نہیں رہتی۔ ماں باپ اولاد کے لئے ایثار کیوں کرتے ہیں؟ اس کے پیچھے ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ماں باپ کے دل میں اولاد کی محبت ڈال دی جاتی ہے اور یہ محبت اللہ ڈالتا ہے۔‘‘

                ’’عالمین سے مراد ہے یہ دنیا جس میں آپ رہتے ہیں۔ اس جیسی اربوں کھربوں دنیائیں بنائی گئی ہیں۔ ہر دنیا میں سورج بھی نکلتا ہے۔ چاند بھی ہے۔ زمین بھی ہے۔ والدین بھی ہیں اور اولاد بھی ہے۔ اللہ کی ربوبیت کا پورا اندازہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی دنیا پر غور کریں۔

                جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ پانی بھی، ہوا بھی، آکسیجن بھی، چاند سورج بھی، زمین میں کھیتیاں اگانے کی صلاحیت بھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد یہ اشیاء پیدا کی گئی ہوں۔ مرنے کے بعد بھی یہ ساری اشیاء موجود رہتی ہیں یعنی یہ دنیا ایک سرائے ہے۔ ایک ہوٹل ہے جہاں بہترین سہولیات حاصل ہیں۔ اسی طرح جب آپ سفر کرنے کے بعد جہاز یا ریل گاڑی سے اترتے ہیں تو آپ کو جہاز یا گاڑی چھوڑنے کا صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ بات پہلے سے آپ کے ذہن میں ہوتی ہے کہ مجھے اس جہاز کو چھوڑ دینا ہے۔ جس طرح آپ ایک جہاز میں ایک ہفتے کا سفر کرتے ہیں اسی طرح آپ دنیا میں پچاس ساٹھ سال گزار کر اس جہاز سے اتر جاتے ہیں تو آپ سب کچھ یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔‘‘

                ’’جب ہم یہاں اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور یہاں زمین نہ ہو، ہوا نہ ہو، پانی نہ ہو، کھیتی باڑی نہ ہو تو ہم آپ کتنی دیر زندہ رہ سکیں گے؟ پہلی بات تو یہ کہ ہم پیدا ہی نہیں ہونگے۔ میری آپ کی ماں ہی نہیں ہو گی تو ہم کہاں سے پیدا ہو جائیں گے۔‘‘

                ’’ہم زمین کو دیکھتے ہیں۔ اس کا اصل مالک کون ہے۔ کوئی خان صاحب یا پی ڈی اے لیکن ہم اس بات کو مانتے بھی ہیں تو صرف زبانی اقرار کی حد تک۔ اسی طرح پانی کس کا ہے اور اس کا بل ہم کس کو دیتے ہیں؟ اسی طرح ہم ہوا اور آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہم اس کے لئے کتنی رقم اللہ کو دیتے ہیں؟ آپ اپنے جسمانی نظام کو دیکھیں، اس نظام کو دیکھ بھال اور مرمت پر آپ اللہ کو کیا دیتے ہیں؟ کیا کبھی کوئی آدمی جسے اللہ نے ذہنی یا جسمانی معذوری کے ساتھ پیدا کیا ہو کیا وہ آدمی خود کو ٹھیک کر سکتا ہے؟‘‘

                ’’انسان اللہ ہی کا دیا ہوا کھا رہا ہے۔ اللہ وسائل پیدا نہ کرتا تو ہماری پیدائش ہی زیر بحث نہ آتی۔ ہم سانس لینے میں کتنی جدوجہد کرتے ہیں۔ ہوا کے جسم میں داخل ہونے اور نکلنے کا جو نظام ہے اس نظام کو انسان کی بے خبری کی حالت میں بھی جاری رہنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ سونے کی حالت میں نہ دل بند ہوتا ہے، نہ دماغ کام چھوڑتا ہے، نہ آنتیں اپنا فعل بند کرتی ہیں، نہ ہی جگر اور گردے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ سارا نظام اس لئے قائم ہے کہ آپ کا ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘

                ’’ہوا کے چلانے میں ہماری کیا طاقت خرچ ہوتی ہے؟ پیدا ہونے میں ہمارا کیا اختیار ہے؟ اللہ آپ کو اگر بھنگی کے ہاں پیدا کر دے؟ وہ آپ کو ایک چمار کے گھر، ایک لوہار کے گھر، فقیر کے گھر یا بادشاہ کے گھر پیدا کر دیتا تو آپ کیا کر لیتے؟ پیدا ہونے کے بعد اللہ چاہتا ہے تو آپ ذہین ہو جاتے ہیں، ذہنی طور پر پسماندہ بھی وہی رکھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے عقل نہ دیتا، مجھے علم نہ دیتا تو میں آپ سے یہ سب باتیں کیسے کرتا؟ اگر میں بچپن اور جوانی گزار کر بڑا نہ ہو جاتا تو آپ مجھے کیوں سنتے؟ آپ یہ بات سمجھ لیں کہ دروبست کنٹرول اللہ کا ہے۔ اللہ جہاں چاہتا ہے پیدا کر دیتا ہے جب چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جتنی دیر چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے۔‘‘

                ’’کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ ستارے آپس میں ٹکرا گئے ہوں؟ سورج اور چاند آپس میں ٹکرائے ہوں؟ دو درخت آپس میں ٹکرائے ہوں؟ آم کے درخت پر بادام لگ گئے ہوں؟ زمین اپنی ڈیوٹی میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔ جو زمین نرم ہے وہ نرم ہی رہتی ہے جو زمین سخت ہے وہ سخت ہی رہتی ہے۔ سورج اپنی روشنی دھوپ کی صورت میں بہم پہنچانے سے کبھی گریز نہیں کرتا۔ چاند اپنی چاندنی بکھیرنے سے کبھی انحراف نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سسٹم پر اللہ اس طرح کنٹرول کئے ہوئے ہے کہ کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر ہل نہیں سکتی۔‘‘

                ’’آپ کہتے ہیں کہ انسان کو اختیار حاصل ہے۔ انسان کو کتنا اختیار حاصل ہے؟ انسان چاہے تو دو کی بجائے چار روٹی کھا لے۔ چھ کی بجائے آٹھ گھنٹے سولے۔ انسان کو جو اختیار دیا گیا ہے انسان اس کو اللہ کی ناشکری کے علاوہ اور کسی جگہ استعمال نہیں کرتا۔ اللہ ہماری سب ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے لیکن جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنا خیال خود رکھتے ہیں۔‘‘

                ’’الحمدللہ‘‘ کا مطلب ہے تمام تعریفیں اس کے لئے ہیں جس نے وسائل پیدا ئے۔ یہ تمام دنیا، تمام کہکشائیں، لاکھوں کروڑوں ستارے پیدا کئے۔ ان سب کو چلانے کا ایک سسٹم قائم کیا ہے۔ وہ اس سسٹم کے مطابق مخلوق کے اندر زندگی دوڑتا ہے۔ اللہ کس طرح عالمین کے اندر اس سسٹم کو چلاتا ہے؟ نوع انسان آدم کے علاوہ یہ علم کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا تا کہ وہ اس علم کے زور پر اس کی نیابت کے فرائض انجام دے۔‘‘

                ’’فرشتوں کے سامنے جب آدم نے کائناتی سسٹم کو چلانے کے فارمولے بیان کئے تو فرشتوں نے آدم کی حاکمیت کو قبول کر لیا۔ آدم کی اولاد بجائے اس کے کہ اپنے باپ آدم کے ورثہ کو استعمال کرتی، دنیا میں محتاج اور بیمار بن کر رہ رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ کائناتی سسٹم کے بارے میں آدم کا جو ورثہ اولاد آدم کو منتقل ہوا اس سے آدم کی اولاد واقف ہی نہیں اور نہ ہی واقف ہونا چاہ رہی ہے۔‘‘

                ’’کسی شیر جیسے درندے نے کبھی ایسا کوئی ہتھیار ایجاد نہیں کیا جس نے شیروں کا قلع قمع کر دیا ہو۔ انسان کے علاوہ کسی دوسری نوع نے اپنی نوع کی ہلاکت کا سامان مہیا نہیں کیا۔ ہر انسان دوسرے سے نفرت کر رہا ہے۔ کتے کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی نوع کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جو انسان دوسرے انسان کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا وہ کتے کی خصلت رکھتا ہے۔ لومڑی کی چالاکی رکھتا ہے۔ انسان کی فطرت اور جبلت کتے، بلی اور دیگر بگھیاڑوں سے بدتر ثابت ہو رہی ہے جو زمین اللہ نے ہمارے لئے مسخر کی ہوئی ہے ہم اس کے لئے مسخر ہیں۔‘‘

                ’’ہر انسان کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے وہ جتنا زیادہ دنیا جمع کرتا ہے اتنا ہی زیادہ بے سکون ہو رہا ہے۔ شہنشاہ ایران گیا تو اپنے ساتھ کیا لے گیا؟ اپنے وطن میں دفن ہونے کی آرزو میں عزلت کی، ذلت کی موت مرا۔ وہ پہاڑوں جیسی دولت چھوڑ گیا، آپ ڈھیریوں جتنی دولت چھوڑ جائیں گے۔ آپ نے دنیا کو خود پہ حکمران بنا لیا ہے۔ اللہ نے آپ کو دنیا پر حکمرانی دی۔ آپ نے دنیا کی خاطر اس حکمرانی کو ہی چھوڑ دیا۔ لہٰذا آپ رب العالمین کے بنائے ہوئے سسٹم میں ایک ناکارہ پرزہ بن چکے ہیں۔ آپ دنیا میں جہاں بھی جائیں دوسری قومیں مسلمان نامی پرزے کو اس طرح نکال باہر پھینکتی ہیں کہ اس کی مرمت ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ آپ نے اللہ کی دی ہوئی حکمرانی کی قدر نہیں کی۔‘‘

                کیا ہم صحیح مسلمان ہیں؟ جب ہم مسلمان ہی نہیں تو ہم اللہ کی دی ہوئی حکمرانی کو کیسے چلا سکتے ہیں؟ جو بندہ خود کو غلام بنانے پر تلا ہوا ہو اللہ اس کو غلام بنا دیتا ہے۔ جو قومیں اپنی حالت میں جیسی تبدیلی چاہتی ہیں اللہ ان میں ویسی ہی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔‘‘

                ’’نفرت، حسد، تعصب جیسی تمام بیماریاں مسلمانوں میں پیدا ہو چکی ہیں۔ اگر میں گھی میں ملاوٹ کر رہا ہوں تو دوسرا آٹے میں کر کے مجھے کھلا رہا ہے۔ کیوں؟ محض دولت جمع کرنے کے لئے۔ آپ نے چند لاکھ روپے جمع کرنے کے لئے کتنے خسارے کا سودا کیا۔ آپ نے دولت کی خاطر اللہ کی دی ہوئی حکمرانی کو چھوڑ دیا۔ یہ حالت اللہ کے غضب کو دعوت نہیں دے گی تو اور کیا ہو گا؟ ہر طرف سے یہی آواز ہے کہ کسی طرح مسلمان نیست و نابود ہو جائے۔ ہر آدمی دوسرے کی برائی کرتا ہے۔ لیکن یہ نہیں سوچتا کہ وہ خود بھی انہی میں شامل ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو نصیحت کرتا ہے لیکن خود اس نصیحت پر عمل نہیں کرتا۔‘‘

                ’’پاکستان اللہ کی نعمت ہے۔ آدھا ہماری بے ایمانی اور جھوٹ بولنے کے باعث ہم سے الگ ہو گیا ہے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا اور ملاوٹ کرنا بری اور غلط بات ہے لیکن اس کے باوجود کئے جا رہا ہے۔‘‘

                ’’ہم پر جتنی زیادہ مادیت مسلط ہو گئی ہے، ہم روحانیت سے اسی قدر دور ہو گئے ہیں۔ علم سے دور ہو گئے ہیں۔ ہم ہر وقت دوسروں کی ترقی کے گن گاتے ہیں لیکن خود ترقی نہیں کرنا چاہتے، کیوں کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔‘‘

                ’’اللہ کا جب بھی ذکر آیا ہے، رب العالمین کے طور پر، کہیں رب المسلمین کے طور پر نہیں آیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی رحمت اللعالمین ہیں۔ اللہ نے ان کو بھی رحمت اللمسلمین نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ جب غیر مسلم کسی ایجاد کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے۔ ذہنی بھی، مادی بھی اور دیگر ہر طرح سے بھی۔ ہم نے لوہے سے متعلق آیت کو محض ثواب کے لئے پڑھ کر چھوڑ دیا لیکن مغرب کے لوگوں نے اس کے بارے میں تحقیق و جستجو سے کام لیا اور آج یہ عالم ہے کہ ان کی ہر ایجاد میں لوہا ایک بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔‘‘

                ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے زندگی بھر کی تکلیفیں اٹھا کر، ماریں کھا کر، خون نکلوا کر کائنات کے تخلیقی اور تسخیری فارمولوں کو ایک ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کیا تا کہ انﷺ کے علوم سے ہم استفادہ کر کے کائنات میں اپنا شرف حاصل کر سکیں۔ ہم نے سب سے زیادہ انہی علوم کی بے حرمتی کی ہے۔ کائناتی سسٹم کو نہ سمجھنا، قرآن پر غور نہ کرنا، انﷺ کے علوم کی بے حرمتی ہی تو ہے۔ جب ان علوم پر ہمارے بزرگوں نے غور کیا تو انہوں نے ایسی ایجادات کیں جنہیں آج بھی مغربی ترقی کی بنیادیں قرار دیتے ہم نہیں تھکتے لیکن ان علوم پر غور و فکر کر کے ہم خود کوئی چیز بنانے اور ایجاد کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘‘

                ’’دولت سائنسی ترقی میں بھی ملتی ہے۔ لیکن ہم تو لوٹ مار کے قائل ہیں۔ سائنسی ترقی کے دور میں داخل ہونے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم ان علوم کا جو آدم کو سکھائے گئے اور وہ کسی اور کو حاصل نہیں، کھوج لگائیں۔ وہ علوم جن کے باعث آدم کو اللہ تعالیٰ کی خلافت ملی۔ کیا وہ زمین پر آنے سے پہلے یا اس کے بعد آدم سے واپس لے لئے گئے؟ ایسا تو ہرگز نہیں ہوا کیونکہ وہ علوم آدم کی روح کو منتقل ہوئے تھے اس لئے جب تک مسلمان اپنے مادی وجود سے آزاد ہو کر اپنی روح کی طرف متوجہ نہیں ہو جاتا وہ یہ علوم حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘

                ’’میں گذشتہ تیس سال سے یہ کوشش کر رہا ہوں کہ ہم مادی جسم میں رہتے ہوئے اپنی روح تک رسائی حاصل کر لیں۔ نہ صرف یہ کہ رسائی حاصل کر لیں بلکہ وہ علوم بھی سیکھ لیں جو ہمارے باپ آدم کا ورثہ ہیں۔‘‘

                ’’قرآن کے الفاظ میں ایک نور ہے۔ ایک روح ہے۔ ہمارے بزرگ نور نبوی اور نور الٰہی سے معمور تھے۔ ہم ایک مفلوک الحال بیمار ہیں کیونکہ ہم نے قرآن پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اللہ سے اور قرآن سے بغاوت کی ہے۔ نتیجے میں ہم اللہ سے دور ہو گئے۔ اس کی سزا میں خوف اور غم ہم پر مسلط ہو چکے ہیں۔ خوف اور غم سے وہی لوگ نجات پاتے ہیں جو اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ سے دوستی کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی روح سے واقف ہو جائیں۔‘‘

                ’’روحانی علوم کے حصول کا طریقہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ آدمی ارکان اسلام کو پورا کرتے ہوئے اللہ کے ساتھ یکسوئی کے ساتھ ذہنی مرکزیت قائم کر لے۔ اسی کانام صلوٰۃ ہے۔ ارکان اسلام کا مقصد ہی یہ ہے کہ بندے کے اندر سے خوف اور غم نکل جائے۔ روزے کی جزا اللہ ہے۔ ہم بھوک کو دبا کر، غصہ چھوڑ کر، بے ایمانی نہ کر کے، ناجائز کام نہ کر کے ہی تو روزہ رکھتے ہیں۔ جب آپ نے دروبست خود کو اللہ کے حوالے کر دیا تو آپ اللہ کے دوست بن گئے۔ اللہ کی دوستی کے لئے تمام ارکان اسلام پورے کرتے ہوئے روحانی علوم حاصل کریں۔‘‘

                ’’اس کے بعد مراقبہ کرنے کا طریقہ تعلیم فرما کر کہا کہ رات کو اور صبح کو دس منٹ اللہ کے لئے نکالیں۔ اس کے لئے آپ کو کہیں آنا نہیں، کہیں جانا نہیں۔ اس اللہ کے لئے جس نے آپ کے لئے سب وسائل فراہم کئے، آپ دس منٹ بھی نہ نکالیں تو یہ آپ کے لئے بڑی ہی بدنصیبی کی بات ہے۔ جب آپ کی نظر آپ کے اندر کام کرنے لگے گی تو آپ اپنی روح سے واقف ہو جائیں۔ بشیر صاحب کے اندر کا بشیر ہی تو بشیر کی روح ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی روح کو تلاش کر لیں۔‘‘

                اظہار خیال کے بعد آپ نے پانی کے گلاس سے پانی پیا۔ ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ خیالات کے الجھے تار ان کے خطاب کی کنگھی سے سلجھ چکے تھے۔ ان کی سوچ کی انگلیوں نے ہماری فکر، ہمارے ذہنوں کے ہر دکھتے گوشے پر مرہم سا رکھ دیا تھا۔ سب اچھے اور بچے بنے بیٹھے تھے۔ کوئی سوال رہا ہی نہیں تھا۔ پورے ہجوم کے ذہنوں میں جتنے بھی سوال تھے، سب کے جواب وہ اپنی تقریر میں دے چکے تھے۔ اب کوئی سوال کرنا زلیخا کی جنس کا تعین کروانا ہی ہوتا۔ سب ایک عالم کیف و سرمستی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

                سب مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا۔ اقبال احمد قریشی صاحب پشاور مراقبہ ہال کے لطیف بھائی ہیں۔ یہ انتظام انہی کے ذمے تھا اور وہ اپنی میزبانی کی صلاحیتوں کے اظہار میں کوئی کوتاہی نہیں ہونے دے رہے تھے۔

                رات وہیں چارسدہ میں قیام تھا۔ کھانے کے بعد چہل قدمی کے لئے نکلے تو نیاز صاحب مرشد کریم کے ہمراہ تھے۔ ممتاز علی، ڈاکٹر مختار اور شاہد درانی کے ہمراہ ہو لئے۔ ڈاکٹر مختار نے ایک عجیب بات کہی کہ:

                ’’ اگر آپ کوئی سوال ذہن میں رکھ کر ابا جی کی تقریر سنیں تو یوں محسوس ہو گا کہ پوری تقریر آپ ہی کے سوال کے جواب میں کی جا رہی ہے۔‘‘

                رات ڈھلے موسم کی خنکی بڑھی، دن میں نوخیز سی گرمی کا احساس تھا۔ اب خنکی بڑھی تو ٹھنڈ کا لطف آیا۔ شاہد درانی نے تجویز کیا کہ چارسدہ کی مشہور مٹھائی جو دودھ اور گڑ کی آمیزش سے بنائی جاتی ہے، کھانی چاہئے۔ چارسدہ کے بازار کی سڑک کے دونوں جانب زیادہ تر جوتوں کی دکانیں تھیں۔ ہم ان کے ناموں کے بورڈ پڑھتے ایک مٹھائی کی دکان تک پہنچے۔ یہ مٹھائی یہاں کی سوغات ہے، ڈاکٹر مختار بتا رہے تھے۔ ممتاز علی سنتے ہوئے بھی سن نہیں رہے تھے وہ شاید مٹھاس کی بابت مرشد کریم کے ارشاد کے حوالے سے کچھ کہنے کو پر تول ہی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے کہا:

                ’’آپ یہ مٹھائی کھا لیں اس سے شعور کو توانائی ملتی ہے۔‘‘

                اس دنیا میں رہنے کے لئے شعور کو توانا کرنے کے لئے مٹھاس ایک جزو اعظم و لازم ہے۔ اس دنیا میں چپک کا سبب یہ مٹھاس ہی تو ہے۔ میں نے سوچا۔

                ہم سیر سے پلٹے۔ معلوم ہوا مرشد کریم سونے کے لئے جا چکے ہیں۔ ہمارے لئے ہوسٹل کے ایک کمرے میں شب بسری کا بندوبست کیا گیا تھا۔ صبح پشاور جائیں گے۔ پشاور میں حیات آباد میں خواتین کے لئے مراقبہ ہال کا افتتاح ہو گا۔ تمام دن لوگوں سے ملنا ملانا رہے گا۔ رات پشاور مراقبہ ہال میں ہو گی اور اگلی صبح ممتاز علی میرے مراد کے ہمراہ کراچی پرواز کر جائیں گے۔ سب ائیرپورٹ جائیں گے۔ آنسو اور پھول نچھاور ہوں گے۔ کچھ گر جائیں گے، کچھ رہ جائیں گے، کچھ ہم ساتھ لے کر پلٹ آئیں گے۔ ہم میں سے کچھ ان کو حرز جاں بنا لیں گے اور کچھ انہیں یادیں۔

                مرید نے دعا مانگی:

                ’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اس امر سے کہ میں بھول جانے والوں میں شامل کیا جاؤں۔‘‘

                آمین!

                

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔