Topics

محبت و عشق کا تذکرہ


                اس بات کا تذکرہ میرے مراد نے کئی بار جلوت و خلوت میں فرمایا کہ ان کو یہ سعادت حاصل ہی کہ ان کے مرشد کریم نے ان کی تربیت کی خاطر چودہ پندرہ سال ان کے یہاں قیام کیا۔ اس بات پہ میرے مراد کو بہت ناز ہے۔ ایک بار محبت و عشق کا تذکرہ فرماتے ہوئے بتایا کہ:

                ’’ پیار بڑھ کر محبت میں ڈھلتا ہے۔ محبت عشق بنتی ہے اور پھر عشق عقیدت میں ڈھل جاتا ہے۔ عقیدت کے بعد کی منزل وجدان ہے۔ امیر خسرو اس کی مثال ہیں۔‘‘

                بات سناتے ہوئے بے ساختگی سے فرمایا:

                ’’میری بات کچھ اور ہے مجھے تو حضور قلندر بابا اولیاء نے پیار کیا۔‘‘

                 اور مجھے عرس کی رات کے خطاب میں کہے ہوئے اپنے مراد کے وہ الفاظ یاد آ گئے کہ:

                ’’ آپ کو مجھ سے پیار کا دعویٰ ہے تو آپ مجھے یہ بتائیں کہ لوہے کو مقناطیس کھینچتا ہے یا مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ آپ مجھ سے اس لئے پیار کرتے ہیں اور مجھ میں کشش محسوس کرتے ہیں کہ میں آپ سے پیار کرتا ہوں۔ آپ مجھے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہیں۔ آپ ہیں ہی میری روحانی اولاد اور اسی رشتے سے میں آپ سے پیار کرتا ہوں۔‘‘

                یہ سن کر مجھ کو یوں محسوس ہوا کہ ماں کی محبت اور ممتا کا نور ہمارے ارد گرد پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ ذہن میں ایک تصویر ابھری۔ ایک بچہ ہے جو ماں کی گود میں ہنس کھیل رہا ہے۔ ماں کا چہرہ اس پر جھکا اور تبدیل ہو کر مراد کے روپ میں ڈھل گیا۔ میں نے چونک کر اپنے مراد کو دیکھا، ممتا کا نور انہی کے چہرے سے تو پھوٹ رہا تھا۔ محبت بھی کیا چیز ہے۔ کہیں ماں اور کہیں مراد اور روپ بہروپ کے اس پردے میں وہ ہستی چھپی ہوئی ہے جو اظہار ممتا کو ستر ماؤں سے زیادہ بڑھ کر ہے۔

                عرس میں شرکت کے بعد رخصت ہونے کی اجازت لینے میں اپنے مراد کے سامنے حاضر ہوا تو عرس کے شاندار انتظامات پر بات ہوئی۔ فرمایا:

                ’’اس بار سب لوگ جو یہاں آئے خوش ہو کر گئے۔ ان کو خوش دیکھ کر میں بھی خوش ہوا۔ اب اگر وہ ہزار آدمی تھے اور ہزار آدمی خوش ہوئے اور میں ہر فرد کو خوش دیکھ کر خوش ہوا تو میری خوشی ہزار افراد کے برابر ہوئی یعنی اس طرح میری خوشی Multiplyہو گئی۔‘‘

                خوشی کو ہزاروں اور لاکھوں گنا کرنے کا یہ نکتہ تعلیم کرنے سے پیشتر اس بات کا اہتمام کیا کہ اس کا عملی مظاہرہ ہو۔ بے شک خانقاہی نظام تدریس میں عمل پہلے اور علم بعد میں آتا ہے۔ یہاں ہر بات خالص ترین حالت میں کہی جاتی ہے اور اسی قدر اخلاص سے آراستہ سماعتوں کی متقاضی ہوتی ہے۔ خلوص ہی کا ایک ساخشانہ سورہ اخلاص بھی تو ہے۔ اسی خلوص کی لہر خلوص نیت سے لے کر خلوص عمل تک جاری ہو جائے تو آدمی انسان بن جاتا ہے اور انسان ہی بندہ بنتا ہے اور بناتا ہے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔