Topics
ایک ہندو کا واقعہ سنایا کہ اس کو اللہ کی کھوج لگ گئی۔ کسی نے کہا جینو پہنو
اس نے پہن لیا۔ کسی نے کہا قشقہ لگاؤ اس نے لگا لیا۔ کسی نے کہا ختنہ کرواؤ گے تب
اللہ ملے گا۔ کسی کے کہنے میں آ کر بالے پہن لئے۔ کسی کے کہنے پر کڑے۔ وہ حضور
قلندر بابا اولیاء سے بھی آ کر ملے تھے۔ کبھی قرآن پڑھتے کبھی گیتا کے اشلوک اور
کبھی گرنتھ صاحب کا پاٹ۔ ڈنڈے سے کڑے بجا بجا کر پڑھتے۔ انہیں کچھ بھی ہاتھ نہیں
آیا۔ مدتیں اسی چکر میں پھرنے کے بعد پریشانی سے کھسک گئے تھے۔ ان صاحب کی محرومی
کا سن کر مجھے بہت ترس آیا۔ میں نے عرض کی:
’’حضور ان کے ساتھ تو بری ہوئی۔ وہ تو اپنی جگہ مخلص تھے۔ انہوں نے تو پوری کوشش
کی۔ انہیں اللہ کیوں نہیں ملا؟‘‘
فرمایا:
’’کسی ایک طرف کے ہو جاتے تو اللہ ملتا۔ انہوں نے اللہ کو خود تک آنے ہی نہیں دیا۔‘‘
میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ یعنی سلوک کی راہوں میں خلوص کے بعد استواری بھی
شرط ہے نہ خلوص کے بنا کچھ ملتا ہے اور نہ استواری کے بغیر۔
ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی
طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔ زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔