Topics

حج کے دوران پردہ


                خطاب سن کر ہم اٹھ کر مراقبہ ہال سے باہر آ گئے اور مرشد کریم لوگوں سے ملنے جلنے میں مصروف ہو گئے۔ رات ہونے پر فراغت ہوئی تو نیاز صاحب نے پارک جانے کی اطلاع دی۔ خواتین کو ساتھ جاتے دیکھ کر مرید نے اپنے مراد کے ذہنوں کی کجی دور کر دینے والے اثر کی بابت سوچا۔ صوبہ سرحد میں پردے کے نام پر عورتوں کو حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے لیکن مرشد کریم عورتوں کی مدد کو یہاں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ سلسلہ عالیہ عظیمیہ میں داخل ہونے والے ہر مرد کے ذہن میں یہ بات واضح طور پر نقش کر دی گئی ہے کہ روحانی طور پر ہر عورت بھی اتنی ہی طاقت ور اور جسیم ہے جتنا کوئی مرد ہو سکتا ہے اور یہ کہ اگلا دور، آنے والا وقت، عورتوں کی حکمرانی کا دور ہو گا۔ ایک بار ایک بھائی نے خواتین کے پردے کی بابت پوچھا۔ آپ نے جواب میں مسکراتے ہوئے پوچھا:

                ’’آپ اسلامی پردے کی بابت پوچھ رہے ہیں یا پٹھانوں کے پردے کی بابت۔‘‘

                جواب میں وہ اپنے تعصب کی تصدیق کرنے کو حوصلہ کہاں سے لاتے۔ کھسیانے سے ہو کر بولے:

                ’’جی! اسلامی پردے کے بارے میں۔‘‘

                فرمایا:

                ’’عرب میں، مکہ میں، خانہ کعبہ میں، حج کے دوران جو پردہ کیا جاتا ہے۔ اس سے بہتر مثال کیا ہو گی آپ کے پاس تقلید کے لئے۔ پھر قدرے توقف کے بعد کہا:

                ’’آپ کا دھیان ہی کب ہوتا ہے، کسی اور طرف!‘‘

                اب اس سے مراد خانہ کعبہ تھا یا خواتین۔ وہاں موجود لوگوں نے اپنے اپنے ذہنوں کے مطابق اپنی اپنی رسائی اور ذوق کے مطابق بات کو سنا اور لطف لیا۔

                مرشد کریم تشریف لاتے ہیں تو سلسلے کے مرد و زن اپنے مرشد کے گرد یوں اکٹھے ہو جاتے ہیں جیسے ایک خاندان کے افراد اپنے والد کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ اس وقت سب کا دھیان ایک ہی بندے کی طرف ہوتا ہے، اس بندے کی طرف جس کی قربت میں دنیا کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ ذہن پر سکون اور روح شانت ہو جاتی ہے۔

                سلسلے کے سب بہن بھائی انہیں کہتے بھی تو ابا ہی ہیں۔ ابا، ابا جی یا حضور ابا جی۔ کچھ بہن بھائی انہیں بابا جی بھی کہہ لیتے ہیں۔ اس لفظ ابا کو کہتے ہوئے جس طرح سے باپ کی شفقت کا ایک گہرا احساس کہنے والے کے ذہن پر مرتب ہوتا ہے اسی طرح ایک احترام اور عقیدت کی کیفیت بھی مرتسم ہوتی ہے۔

                پارک جاتے ہوئے صوبہ سرحد پشاور کی سڑکوں کی تعریف کی۔ یونیورسٹی روڈ سے گزرتے ہوئے فرمایا:

                ’’لگتا ہی نہیں کہ ہم پاکستان میں ہیں۔ یوں لگتا ہے یورپ کے کسی شہر سے گزر رہے ہیں۔‘‘

                مرید نے سوچا شاید یہ بات انہوں نے پشاور کو خوش کرنے کو کہی ہے۔ شہر بھی تو ایک جسم ایک وجود رکھتے ہیں۔ ہر شہر کے اپنے نقوش اور خدوخال ہوتے ہیں۔ اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے لے کر پیرس، نیویارک، لندن، ٹوکیو اور بنکاک جیسے شہروں کا سوچ کر دیکھ لیں۔ ہر شہر کی کیفیات دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ بعض شہروں میں تو وسوسے بالکل ہی نہیں آتے اور بعض شہر تو اپنی مخصوص فضا کے سبب پہچانے جاتے ہیں۔ ہر شہر کا اپنا ایک جداگانہ اور منفرد تشخص ہوتا ہے۔

                پارک میں ادھر ادھر گھومنے کے بعد میرا مراد پھولوں کے ایک کنج کے قریب بیٹھ گیا۔ سب نے گھیرا ڈالا۔ سب خاموش بیٹھے تھے۔ مرید نے مراد کو دیکھا۔ مراد آسمان کی طرف طلوع ہوتے چاند کو دیکھ رہا تھا۔ مرید کے ذہن میں بچپن کی یادوں کا ایک ریلا گزرتا چلا گیا۔ گاؤں میں چاندنی راتوں میں بچے دائرے میں بیٹھ کر کلا چھپاکی جمعرات آئی اے۔ گاتے پیچھے مڑ کر دیکھنے والوں کو کپڑے کے مروڑا دے کر بنائے ہوئے کوڑے سے مارا کرتے اور جو اپنے پیچھے رکھے کوڑے کو محسوس کرنے میں ناکام رہتا وہ چور بنتا اور مار کھاتا۔ اس کھیل کا مقصد بھی حسیات کو تیز کرنا ہی ہوتا ہو گا تا کہ آپ گردن موڑے بغیر پیچھے رکھے جانے والے کپڑے کے کوڑے کی موجودگی محسوس کر سکیں۔ ساری بات ہی محسوسات کی ہے۔ انسان میں احساسات دور کرنا بند کر دیں تو وہ زندگی سے دور ہو جاتا ہے۔ بے حسی اور موت میں یہی تو ہوتا ہے۔ بے حسی میں احساسات ختم ہو جاتے ہیں۔ موت میں احساسات بڑھ جاتے ہیں۔ میرے اندر کوئی بولا۔ رات کے حواس بڑھ کر موت کے حواس میں ڈھل جاتے ہیں تو بندہ اس دنیا سے کسی اور عالم کسی اور جہاں میں منتقل ہو جاتا ہے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔