Topics

انسان اس زمین کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے


                اٹک شہر پہنچے۔ گاڑی چھاؤنی کے علاقے سے ہوتی ہوئی شہر سے باہر کی طرف چلتی چلی گئی۔ ہم شہر سے نکل کر کھلے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے۔ شہر سے چند ایک میل دور آ کر کھلی فضاؤں، کھلے کھیتوں کی طرف کچے راستوں پر گاڑی مڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ اٹک مراقبہ ہال کے ارکان نے اس زمین پر ایک ہال کمرہ اور ایک دو چھوٹے کمرے اور کچن وغیرہ بنا لئے ہیں۔ سڑک سے ایک دو فرلانگ دور آ کر گاڑی ایک نو تعمیر عمارت کے درمیان رک گئی۔ مرشد کریم نے گاڑی سے باہر نکل کر استقبال کو آنے والوں کو دعاؤں سے نوازا۔ ڈاکٹر صاحب لوگوں کو ہال میں بیٹھنے کا کہہ کر مرشد کریم کو ساتھ لے کر زمین اور عمارت کا معائنہ کروانے لے گئے۔ میرے مراد نے ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کی بہت تعریف کی۔ ان کی ہمت کی داد دی۔ ان کی لگن اور ذوق و شوق میں استقامت کی دعا کی۔ کھلی فضا میں ایک نوخیز سی عمارت کو دیکھا۔ چاروں طرف کھیت ہی کھیت اور ایک طرف کوئی فرلانگ بھر دور ایک دوسری عمارت جس کی بابت بتایا گیا کہ یہ ایک سکول کی عمارت ہے۔ یہاں مسجد بنے گی۔ پہلے یہاں مونگ پھلی کاشت ہوتی تھی اب یہاں آڈیٹوریم ہو گا۔ یہاں لائبریری ہو گی۔ یہاں وہ ہو گا، یہاں یہ ہو گا۔ 

                میں نے سوچا:

کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد

                دوپر کے کھانے کا دو جگہ انتظام تھا۔ مردوں اور عورتوں کو لنگر سے الگ الگ کھانا کھلایا جا رہا تھا۔ مرشد کریم اور پشاور سے آئے ہوئے مہمانوں  کے لئے پرہیزی کھانا۔ کھانے میں گھیکوار کا سالن دیکھ کر میں نہ رہ سکا۔ اپنی حیرت کے اظہار کے بعد ڈاکٹر صاحب سے اس سالن کو بنانے کی ترکیب پوچھ بیٹھا۔ ڈاکٹر صاحب کے جواب دینے سے پیشتر مرشد کریم نے شفقت سے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا:

                ’’ہر چیز جاننے کی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر بات ذہن میں رکھنے کی ہوتی ہے۔‘‘

                ڈاکٹر ممتاز اختر نے وقت کی کمی کے پیش نظر انتظام یہ کیا کہ مرشد کریم خطاب فرمائیں اور سوال و جواب کی نشست کے بعد چند ایک خاص خاص مریض ان سے مشورہ کر لیں۔ مراقبہ ہال کے کمرے میں لوگ سماعتوں کے کاسے پھیلائے مرشد کریم سے افکار کے موتی سمیٹنے کو بے تاب و منتظر بیٹھے تھے۔ پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

                مرشد کریم نے اپنے مخصوص دھیمے، نرمل اور کومل انداز میں تقریر کا آغاز کیا۔ سب کا وہاں آنے پر شکریہ ادا کرنے کے بعد فرمایا:

                ’’اگر کسی آدمی سے یہ سوال کیا جائے کہ وہ کوئی کام کیوں کرتا ہے تو اس کا جواب وہ دے دیتا ہے۔ آپ پوچھیں سوتے کیوں ہو؟ اس کا بھی جواب دے گا۔ آرام کرنے کے لئے۔ آپ پوچھیں کھیتی باڑی کیوں کرتے ہو؟ جواب ملے گا، کھیتی باڑی خوراک کے حصول کے لئے ہی تو کی جاتی ہے۔ شادی کیوں کرتے ہو؟ تو وہ کہے گا کہ نسل انسانی میں تسلسل اور اضافے کے لئے۔ غرضیکہ ہر فعل کا مقصد بیان کر دے گا لیکن اس سے اس زمین پر اس کی پیدائش اور موت کے متعلق دریافت کریں تو اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ آخر تمام عمر کی جدوجہد کے پیچھے کوئی مقصد ہو گا، آخر وہ کونسا مقصد کارفرما ہے؟‘‘

                ’’زمین کے متعلق اگر یہ پتہ ہو کہ ایک روز اس نے چھن جانا ہے تو آپ اس پر اپنا مکان نہیں بناتے لیکن ہماری پیدائش کے بعد ہمیں جو زمین عارضی طور پر ملتی ہے اس کے بارے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ زمین عارضی طور پر ہمیں دی گئی ہے۔ ہم اس کے عوض ایک پیسہ بھی اللہ کو نہیں دیتے۔ انسان اس زمین کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ اس کی قیمت لیتا ہے اور دیتا ہے۔ اگر ہمیں کوئی مکان دیا جائے اور ملکیت ہماری نہ ہو تو ہم اس پر کوئی مال خرچ نہیں کرتے۔ آپ کو ایک بچہ دے دیا جاا ہے کہ آپ اس کی تربیت کریں اور اس کے عوض ماہانہ یا سالانہ رقم لیتے رہیں۔ آپ اس بچے کی نگہداشت کرنے اور تربیت دینے کے باوجود اس بچے کو اپنا بچہ نہیں کہتے۔ یہ صورت حال زندگی کے مختلف شعبوں میں نظر آتی ہے۔ یہاں اس زندگی میں اس دنیا میں یہ انسان محض ایک Care Takerکی حیثیت سے مختلف اشیاء پر تصرف رکھتا ہے۔ بیوی پہ آپ کی کوئی ملکیت نہیں بچوں پر آپ کی کوئی ملکیت نہیں۔ یہاں پر کسی بھی شئے پر کسی کی کوئی ملکیت نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ فلاں چیز میری ملکیت ہے غاصبانہ طرز فکر ہے۔‘‘

                ’’زمین کے اصل مالک کو آپ ایک پیسہ تک نہیں دیتے۔ یہاں جو بھی شئے استعمال کی جاتی ہے اس کی ملکیت کا دعویٰ دار بننا کس قدر حق بجانب ہے۔ ہم یہاں پر عطا کی گئی اشیاء کو استعمال کرتے ہیں لیکن بتاتے نہیں کہ یہ شئے مجھے عطا کی گئی ہے۔ ہم خود کو اس شئے کا، اس زمین کا مالک سمجھتے ہیں۔ لوگ چھینا جھپٹی میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ ان کے نقوش تک بگڑ گئے ہیں۔ چونکہ ملکیت کا تصور ہی غاصبانہ اور بزدلانہ امر ہے اس لئے ہر آدمی بے چین اور پریشان ہے۔‘‘

                ’’اگر آپ کسی مکان میں رہتے ہیں، آپ کے ذہن میں مکان کے بارے میں بدنیتی آ جائے تو آپ پریشان ہو جائیں گے۔ اس دنیا کو بھی ایک مکان کی مثال سمجھیں۔ اس کے وسائل کو عطا سمجھیں۔ اگر پانی نہ ہو تو ساری دنیا مر جائے گی۔ اللہ کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا کہ تم ان وسائل کو استعمال کرو۔ جب انسان نے جنگل کی کٹائی کی اور اللہ کے علم میں یہ بات آ گئی کہ یہ انسان کٹے ہوئے پودوں کی کمی کو پورا کرنے کے لئے پودے نہیں لگا رہا تو اللہ نے تیل نکال دیا۔ جب تیل کے وسائل بے تحاشا خرچ کئے گئے تو اللہ نے انسان کے لئے گیس نکال دی۔‘‘

                ’’اللہ تعالیٰ گندم کے ایک بیج کے عوض ستر دانے اگاتا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ یہ سب کیوں کر رہا ہے؟……کیونکہ اللہ نے مخلوق کو اس سے پوچھ کر پیدا نہیں کیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی مرضی سے پیدا کیا ہے۔ اس لئے اس نے اس کی حیات کے تمام وسائل کی فراہمی اپنے ذمہ لے لی ہے۔ آپ اپنی مرضی کے بغیر پیدا ہو کر……اپنی مرضی کے بغیر زندہ رہ کر……اپنی مرضی کے بغیر مرنے پر مجبور ہونے کے باوجود وسائل کو اپنی مرضی کا پابند رکھنا چاہتے ہیں؟‘‘

                ’’میرا باپ، میری ماں……اگر یہ سب کچھ آپ کی ملکیت ہیں تو یہ سب چھن کیوں جاتی ہیں۔ یہاں ہر شئے عارضی ہے۔ لیکن آپ ہر مشاہدے کو جھٹلاتے اور ہر تجربے کو رد کرتے ہیں اور ہر شئے کو حقیقی سمجھتے ہیں۔ جوانی میں آپ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے۔ لیکن بڑھاپے میں جب قبر نظر آنے لگتی ہے تو انسان سوچتا ہے کہ میں نے یہ سب کیوں کیا؟‘‘

                ’’اگر آپ زمین اور اس پہ اپنے قیام کو عارضی سمجھیں گے تو خود بخود آپ کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو جائے گی کہ ہم اللہ کے مہمان ہیں۔ اگر میزبان اچھے کھانے کھلاتا ہے اور ہم اس کے شکر گزار ہوں تو نتیجے میں وہ ہم سے خوش ہو گا اور عنایات دو چند کر دے گا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے آپ یہ سمجھیں گے کہ اگر آپ مہمان نہیں تو آپ اس کے دیئے ہوئے وسائل کے بغیر رہ کر دکھائیں۔ اس کے پاس سے آئے ہیں۔ اسی کے پاس واپس لوٹ جائیں گے۔ یہ مہمانداری یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ اس دنیا سے لے کر اعراف تک……عالم اعراف سے لے کر حشر نشر تک……عالم ارواح سے لے کر جنت دوزخ تک……سب مہمانداری ہی تو ہے۔‘‘

                ’’آپ ایک سیکنڈ میں آٹھ دس سال کی عمر میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ آپ کو اسی ایک سیکنڈ میں اپنی پوری زندگی کی تصویر نظر آ جاتی ہے۔ درحقیقت ٹائم اور سپیس کچھ نہیں۔ یہ سب اس میزبان کا کرم ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اس کو سمیٹ لیتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو پھیلا دیتا ہے۔‘‘

                ’’صبح اٹھ کر ہم کہتے ہیں کہ ہر شئے نئی ہے۔ سورج بھی وہی رہتا ہے۔ زمین میں بھی کوئی رد و بدل نہیں ہوتا۔ یہ بھی اس میزبان ہی کی مہربانی ہے کہ وہ روز و شب کے رد و بدل سے دن رات میں خرچ کی گئی توانائی کو پورا کر دیتا ہے۔ آپ اچھے مہمان نہیں تو میزبان آپ سے کبھی راضی نہیں ہو گا۔ آپ اچھے مہمان بنیں گے تو آپ کو اگلی منزل پر بہتر میزبانی ملتی ہے ورنہ کال کوٹھری……‘‘

                ’’ہم کھا اللہ کا رہے ہیں……گا اپنا رہے ہیں۔ رات دن مزدوری کر لیں جب اللہ پانی نہیں برسائیں گے تو آپ کہاں سے لائیں گے پانی؟……اگر آپ مان لیں کہ آپ اللہ کے مہمان ہیں۔ یہ دنیا ایک سرائے ہے۔ ایک ریل گاڑی ہے۔ تو یہ صراط مستقیم ہے۔ ان سب شواہد کے باوجود اگر کوئی انسان اس دنیا کو اپنی ملکیت سمجھے تو یہ کھلی گمراہی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔‘‘

                ’’انسان کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اس ذات کو پہچانے جو اس زندگی میں اس کا میزبان ہے۔ آپ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا کھوج لگائیں گے۔ وسائل کے بارے میں تفکر کریں گے تو ایک اللہ ہی سامنے آئے گا۔ جب آپ نے اللہ کو دیکھ لیا تو آپ کے یہاں آنے کا مقصد پورا ہو گیا۔ یہی جنت ہے ورنہ دوزخ……اللہ کو جاننے والوں کے دلوں میں یہ امر خوب اچھی طرح راسخ ہو جاتا ہے کہ ہر شئے کے پیچھے اللہ اور صرف اللہ ہی ہے۔‘‘

                خطاب سننے کے بعد عجیب کیفیت تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہر سوال کا جواب دے دیا گیا ہو۔ حضور نے کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد کہ اگر کسی نے کوئی سوال پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔ اور جب کوئی سوال نہ آیا تو مائیک ہٹا دیا۔ مائیک ہٹا کر پیچھے ہٹ کر بیٹھے تو ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کو باری باری آگے آ کر مرشد کریم سے ملنے کا کہا۔ مرشد کریم لوگوں سے فرداً فرداً مل رہے تھے۔ ہم باہر نکل کر اٹک مراقبہ ہال کے ارکان سے ملنے لگے۔ ان کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہتے، ان سے اپنے لئے دعا کا کہتے تو وہ مسکرا دیتے۔

                ’’یہ سب حضور کی کرم نوازی ہے۔‘‘

                مرشد کریم کی عنایت ہے۔ کسی کو کسی کریڈٹ کا شوق ہی نہیں تھا۔

                شام ڈھلنے سے پہلے ہم پشاور کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔ اب ہماری نشست اپنے مراد کے پیچھے جانے والی ویگن میں تھی۔ ممتاز علی اور میں اس ویگن میں پچھلی سیٹوں پر خاموش بیٹھے۔ طبیعت میں در آنے والی اداسی پر غور کر رہے تھے۔ شاید یہ اپنے مراد سے دور ہونے کا سبب تھا یا دوسرے بھائیوں کے ان کے قریب ہونے پر حسد کا شکار ہو رہا تھا۔ بہرحال جب خود کوبہلا نہ سکے تو آنکھیں موند لیں۔ گاڑی کے ہچکولے جھولے بن گئے اور ہم سو گئے۔

٭٭٭٭٭

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔