Topics

بار روم میں خطاب کے دوران


                اگلے روز صبح جب مرشد کریم کے ہمراہ لاہور ڈسٹرکٹ کورٹس کے لئے روانہ ہوئے تو آہلو روڈ سے کوٹ لکھپت تک ہر شئے جو آنکھوں کے آگے سے گزری، گزرتی ہی چلی گئی۔ کوٹ لکھپت سے گزرنے کے بعد لاہور کی پر شور ٹریفک نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ لاہور کے خدوخال نظر آنا شروع ہوئے۔ میں گاڑی میں مرشد کریم کے بالکل پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ اتنا بڑا شہر اب تک کہاں تھا۔ میں جامعہ عظیمیہ جاتے ہوئے آج سے تین چار روز پہلے بھی تو یہیں سے گزرا تھا۔ مجھے یہ بات کیوں بھولی رہی کہ میں لاہور آیا ہوا ہوں۔ دل نے سرگوشی میں جواب دیا۔ قرب مراد کا اب اتنا اثر تو ہونا ہی چاہئے تھا۔

                مجھے اب تک لاہور میں گزرے وقت، گزرے دن، یہاں گزرا ماضی، یہاں جن جن تجربوں سے دوچار ہوا، یہاں رہنے والے عزیز و اقارب، دوست، رشتے دار کیوں یاد نہ آئے؟ میں نے اپنے دل سے اصرار کیا۔ لاہور میں گزاری مال روڈ کی شامیں۔ نہر کے کنارے موٹر سائیکل پر میلوں فراٹے بھرنا۔ گرمیوں میں نہر میں نہانا۔ شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کے سامنے بارہ دری میں گزاری راتیں، طالب علمی کے دن، عملی زندگی کی کاوشوں کے اولین دور کی کھٹی میٹھی یادیں، سبھی کچھ تو حافظے سے اترا ہوا تھا۔ آخر کیوں؟ یہی سمجھ میں آیا کہ ذہن کی سطح پر کوئی لہر چلتی ہے تو خیال اور تصور جنم لیتے ہیں۔ جب لہریں ہولے ہولے دبے دبے چلتی ہیں تو خیال و تصور بھی مدہم مدہم اور دھندلے دھندلے سے ہی جنم لیں گے۔ یادوں کی لہریں احترام مراد میں اتنی آہستہ خرام اور سبک رو تھیں کہ مجھے راستے تک یاد نہیں آ رہے تھے۔ میں نے چوبرجی کو دیکھا اور صرف دیکھا کیا۔ اس کے سامنے گزرے لمحات میں سے کسی لمحے نے آواز نہ دی۔ اب مجھے اس پر کوئی حیرت نہ تھی۔ صرف اتنا تاثر ابھرا کہ یہ سڑک جو اب چوبرجی کے گرداگرد گھوم کر گزر رہی ہے پہلے یہاں نہ تھی۔ حیرت کے حافظے میں جاگزیں ہونے سے پہلے ہی ہم وہاں سے آگے بڑھ چکے تھے۔

                ٹریفک کے بے ہنگم شور میں ہم لوئر مال سے گزر رہے تھے کہ اچانک پورا لاہور شہر زندہ دلاں مجھے بہت عجیب سا لگا۔ بدلا بدلا سا۔ مال کی طرف سے ٹریفک کا ایک دھارا لوئر مال کے بہاؤ میں شامل ہو رہا تھا۔ اس سنگم پر لوہے میں مقید سواریوں کو ایک دوسرے کو کچل دینے اور خود کو بچا لینے کی آرزوؤں سے لڑتا دیکھ کر میں نے اپنے مراد کے چہرے پر نظر ڈالی۔ وہ گاڑی کی اگلی نشست پر بیٹھے تھے۔ پیچھے سے دیکھنے پر ان کے چہرے پر تبھی نظر پڑتی تھی جب وہ دائیں یا بائیں دیکھتے۔ انہوں نے دائیں طرف دیکھا چہرے کا جتنا حصہ نظر آیا وہاں صرف سکون کی حکمرانی تھی۔ ان کی نظر مقام بدلتی ہے، تب بھی نہ پتلی میں جنبش ہوتی ہے اور نہ آنکھ حرکت کرتی ہے۔ آدھ کھلی آنکھیں، نچلا ہونٹ ساکت رہنے کے باوجود اک مسکان کو نمایاں کر رہا ہوتا ہے۔ دانت نہ ہونے کے باوجود پوپلا پن چہرے پر نظر نہیں آتا۔ جب کبھی کہیں خطاب کرنے جانا ہو، کسی اجتماع میں تقریر کرنا ہو تو صاف ستھرے لباس پہ ٹوپی اور عینک کا اضافہ ہو جاتا ہے اور خوشبو……خوشبو وہ کب نہیں لگاتے۔ میں جب بھی ان کے قریب ہوا میں نے مشام جاں کو معطر ہوتے پایا۔ سو اس وقت بھی قراقلی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ چشمے میں فوٹو سیل شیشے لگے ہوئے تھے جو روشنی کی شدت کے ساتھ تاریک ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ٹوپی کے نیچے گردن کے پاس نظر آنے والے بالوں کو مہندی سے رنگا دیکھا۔ بال مہندی رنگ کے بجائے سنہری سے رنگ کے بجائے سنہری سے نظر آ رہے تھے۔ کچھ عجیب سا حسن بکھرا دیکھ کر میرا جی چاہا کہ میں کہوں کہ آپ نے مہندی لگا کر بہت اچھا کیا مگر جب بولا تو منہ سے نکلا۔ آپ پر مہندی بہت جچ رہی ہے۔ مرشد کریم نے اس اطلاع کو شفقت بھرے لہجے میں ’’اچھا‘‘ کہہ کر قبول کیا اور پھر بتایا کہ کس طرح ان کی بیٹی نے ان کے لئے مہندی بنائی اور انہوں نے کچھ ان کی خاطر اور کچھ گرمی کے لئے مفید جان کر لگا لی۔ میں نے سوچا کہ میں نے کہنے میں جملہ کیوں بدلا۔ میرے اندر اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کبھی کبھی بہت طویل بحث ہوتی ہے۔ ابھی یہ بحث ابتدائی مراحل میں ہی تھی کہ ہم ضلع کچہری کی عمارت میں گاڑی سے اتر رہے تھے۔

                میں ضلع کچہری کی عمارت بہت عرصے کے بعد دیکھ رہا تھا۔ ہم گاڑی سے اترے تو دھوپ میں تمازت تھی۔ بڑھتی ہوئی آلودگی ہی اس کا سبب رہی ہو گی۔ لوگوں کے چہرے صبح کی تازگی اور بشاشت کی بجائے کھنچے، تنے اور ستے ہوئے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ ایک بار ہمیں بتایا گیا تھا کہ آلودگی سے پیدا ہونے والے جراثیم اتنے زہرناک ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک آدھ بھی انسان کے نچلے ہونٹ کی اندرونی سطح پر لگ جائے تو آدمی پانی بن کر بہہ جائے مگر یہ قدرت کا ایک عجیب راز ہے کہ انسانی سانس سے وہ لاکھوں کی تعداد میں مر جاتے ہیں اور منہ کے قریب نہیں آتے۔ یعنی انسانی سانس ان جراثیم کے لئے سم قاتل ہوتا ہے لہٰذا وہ دور دور ہی رہتے ہیں۔ یہ جراثیم اتنے باریک اور اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ کسی خوردبین سے نہیں دیکھے جا سکتے۔ لوگ تازہ دم نہیں تو کچھ عجب نہیں۔ آلودگی سے سب کچھ ممکن ہے۔ دھوپ سے بچنے کو ہم عمارت کے سائے میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے ارد گرد دیکھا۔ ہر کوئی اپنے دھیان میں مگن، اپنی سوچوں میں غلطاں آ جا رہا تھا۔ یہ عمارت بھی نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو روزانہ الجھنوں، پریشانیوں اور گھٹن سے لڑتے دیکھ دیکھ کر تھک چکی تھی۔ مجھے یہ عمارت کچھ بیزار بیزار سی لگی۔ عمارت کے سائے میں اسی بات پر بات شروع ہو گئی۔

                مختلف عمارات مختلف کیفیات سے کس طرح متاثر ہو کر انہیں کیفیات کی آئینہ دار بن جاتی ہیں اور وہی کیفیات ان کے قریب جانے والوں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ عدالتوں، کچہریوں میں رعب، پژمردگی، اندیشے اور وسوسے، تھانوں میں کرب، احساس جرم اور دہشت زدگی، ہسپتالوں میں بیماریوں کا اداس تاثر اور تکلیف، بینکوں میں ایک مخصوص چمک، حرص اور کاروباریت، ہوٹلوں میں مسافرت کے جھنجھٹ، طعام و قیام اور خانقاہوں میں سکون اور عقیدت کے ساتھ طلب اور امید کی کیفیات کچھ اس طرح رچ بس جاتی ہیں کہ بعض اوقات تو عمارات کو دور سے ہی دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ عمارت سکول ہے یا دفتر۔ گھر ہے تو کیسا۔ گھروں کی عمارات اپنے مکینوں کے تصورات کا عکس ہوتی ہیں۔ یہیں سے ایک گھر کی کیفیات کے دوسرے سے جدا اور منفرد ہونے کی بات بھی سمجھ میں آ گئی۔

                بار روم میں خطاب کے دوران ایک بات وہاں کے سب شرکاء محسوس کر رہے تھے کہ آج کی تقریر کا موضوع اور گفتگو کا دھیما دھیما انداز ان کے لئے اگر انوکھا نہیں تو نیا پن ضرور رکھتا ہے۔ میرے مراد نے آغاز تقریر میں بار کونسل کے صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں موجود لوگوں کے روحانیت کے موضوع سے دلچسپی کو سراہا اور انسان کے آگے بڑھنے کی خواہش، حیوانات سے ممتاز ہونے کی کاوش، پتھر کے زمانے سے آج تک کے ارتقا کی بات سنا کر بتایا کہ یہ دنیا سترہ بار تباہ کر کے دوبارہ آباد کی گئی ہے اور اب پھر اس کا ارتقا اپنے اختتامی مراحل پر پہنچ چکا ہے لیکن اس سفر میں انسان ایک بار پھر پریشانیوں اور بے سکونی سمیٹ لایا ہے۔ جب ہمارے پاس وسائل کم تھے سکون زیادہ تھا۔ جب وسائل زیادہ ہو گئے ہیں تو سکون کم ہو گیا ہے۔ مادی وسائل چونکہ عارضی ہوتے ہیں اس لئے ان سے حاصل ہونے والا سکون بھی ناپائیدار اور عارضی ہوتا ہے۔ مادیت میں ہر چیز پر ہر لحظہ فنا وارد ہوتی ہے لیکن مادیت کو سنبھالنے والی چیز پر موت وارد نہیں ہوتی۔ انسان جو کچھ کرتا ہے کہیں سے آنے والے خیالات کو موصول کر کے کرتا ہے، اس لئے اس کو کسی بات کا بھی کوئی اختیار حاصل نہیں۔ تمام سائنسی ایجادات کسی نہ کسی خیال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ لیکن ہم خیالات کے علم سے واقف نہیں، اس لئے اس نظام کو سمجھنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ انسان اس لئے پریشان نہیں کہ وہ مادی وسائل استعمال کرتا ہے بلکہ اس کی پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے ان وسائل کو مقصد حیات بنا لیا ہے۔ اگر ہم دنیا کو ایک مسافر خانہ، ایک ہوٹل یا ایک بحری جہاز کی طرح وقت آنے پر چھوڑنے کے لئے تیار رہیں اور مقصد وسائل کو نہیں بلکہ وسائل بنانے والے  کو بنا لیں تو ہمیں پریشانیاں اپنی نشانہ نہیں بنا سکیں گی۔

                میرے مراد نے زور دے کر فرمایا کہ وسائل بچے کے پیدا ہونے سے پہلے موجود ہوتے ہیں یعنی یہ دنیا ہمارے لئے بنائی گئی ہے، ہمیں دنیا کے لئے نہیں بنایا گیا۔ ہمیں اس دنیا میں مسافروں کی طرح زندگی گزارنی چاہئے اور اس کے لئے ہمیں پیغمبروں کی زندگی کو مثال بنانا ہو گا۔

                اس کے بعد انہوں نے سلسلہ عظیمیہ کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ روحانی علوم کو سائنسی بنیادوں پر سیکھنے اور سکھانے کے لئے طریقت کا ایک اہم سلسلہ ہے۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ انسان سکون آشنا ہو کر زندگی بسر کرے۔ انسان کو سکون تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب کہ وہ اپنی اصل سے واقف ہو اور انسان کی اصل اس کی روح ہے۔

                انہوں نے کہا کہ تصوف یہ نہیں کہ انسان کپڑے نہ پہنے یا پہنے تو پھٹے پرانے پہنے اور جنگلوں میں جا بسیرا کرے۔ ہم اس مادی ترقی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی تصوف کے راہنما اصولوں سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ مراقبہ کرنا ہے اور پھر انہوں نے مراقبہ کرنے کا طریقہ بیان کر کے تقریر ختم کر دی اور اپنی کتب کا ایک سیٹ وکلا کی لائبریری کے لئے تحفتاً دیا۔

                بار کونسل کی رسم یہ ہے کہ وہاں خطاب کرنے والوں سے سوال جواب نہیں کئے جاتے لیکن ایک رکن نے کہا یہ خطاب چونکہ کوئی سیاسی خطاب نہیں بلکہ علمی گفتگو ہے لہٰذا بات کی وضاحت کے لئے سوال کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس پر بار کے صدر نے میرے مراد سے درخواست کی کہ اگر وہ پسند فرمائیں تو چند ایک سوالات کے جواب دے کر لوگوں کو مزید مستفیض ہونے کا موقع دیں۔ خواجہ صاحب نے آزاد کشمیر جانا تھا اور خطاب میں پہلے ہی کافی وقت لے چکے تھے لیکن پھر بھی آپ نے دوبارہ مائک سنبھال لیا۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔