Topics

طرز فکر کی منتقلی


                اسی تربیتی پروگرام کا ایک حصہ صبح کے مراقبے کے بعد کی تقریر ہوتی ہے۔ اس تقریر کے بنیادی مقاصد میں طرز فکر کی منتقلی، علوم کی فراہمی، ذہنوں کی آبیاری، تزکیہ نفس اور غور و فکر کی دعوت، سبھی کچھ ہوتا ہے۔ صبح دم مراقبے کے بعد جب سرور اور کیف ذہنوں پہ نیند بن کر حواس کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہوتے ہیں، مرشد کریم کی میٹھی اور مدھر آواز ہمیں مطلع کر رہی تھی کہ انسان میں معین مقداریں کام کرتی ہیں۔ انسان اور اس کے علاوہ ہر شئے کی تخلیق انہی معین مقداروں کے سبب ممکن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے درخت پر صرف آم، سیب کے درخت پر صرف سیب ہی لگتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک لگے بندھے عظیم الشان سسٹم کے تحت ہو رہا ہے۔ اس سسٹم کی تفصیلات اور جزئیات کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ انسان میں تین باتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر اس کو دوسری مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ معین مقداروں کا علم رکھنا۔ ان معین مقداروں میں کمی بیشی کر کے انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھنا اور پھر ان کو ایک سسٹم کے تحت استعمال بھی کرنا یعنی مقداروں کا علم۔ اچھائی برائی کا علم اور اس سسٹم کو چلانے کا علم۔

                پھر ایک ایک جزو کی تفصیل ارشاد فرمائی اور یہ وضاحت کی کہ سسٹم کو چلانے کے لئے درکار علم میں لہروں کی منتقلی کے قانون اور علم سے واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ اس واقفیت کے حصول کا طریقہ روحانیت میں تصور شیخ ہے کیونکہ جب ہم شیخ کا تصور کرتے ہیں تو درحقیقت ہم شیخ کے اندر کام کرنے والی معین مقداروں کو لہروں کے ذریعے اپنے اندر منتقل کررہے ہوتے ہیں۔

                ایک روز فرمایا کہ مرشد کا کام یہ ہوتا ہے کہ مرید کو نہلاتا دھلاتا اور صاف کرتا رہتا ہے، وہ جاتا ہے اور پھر سے گندہ ہو کر آ جاتا ہے۔ نہ یہ باز آتا ہے نہ وہ۔ دونوں اپنے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بات سن کر میرے ذہن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ارشاد خداوندی تازہ ہو گیا۔

                ’’اور بے شک وہﷺ تو آپ کا تزکیہ کرتے، کتاب کا علم عطا کرتے اور حکمت سے آراستہ کرتے ہیں۔‘‘                                 (قرآن)

                مرشد کریم اتباع سنت میں ہی تو وہ مشکل اور کٹھن کام کر رہا ہوتا ہے جس کو قرآن بنی کی ڈیوٹی قرار دے رہا ہے۔

Topics


Ek SAFAR APNE MURAD KE HAMRAH

ڈاکٹر مقصود الحسن عظٰیمی


طرز فکر کی منتقلی میں ذوق و شوق کے علاوہ قربت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ روحانی علوم کے جویا کو اس قرب کی خاطر، اس کا روحانی باپ اپنے قریب کرتا ہے تا کہ وہ اس کے روز و شب کی مصروفیات، اس کے انداز فکر، اس کے طرز استدلال، اس کی سوچوں اور اس کے طرز عمل کا مشاہدہ کر سکے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اس جیسا انداز اپنانے میں سہولت حاصل رہے۔  زیر نظر کتاب میں ایک مرید اپنے مراد کے ہمراہ رہنے کے بعد اس قربت کا حال سنا رہا ہے جو اس کو اس کے مراد نے عطا فرمائی۔ اس احوال سے جہاں مرشد کے انداز تربیت کے دلنشین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں اس طرز فکر کا بھی پتہ چلتا ہے جو ایک روحانی شخصیت کو حاصل ہوتی ہے۔ مصنف اس لحاظ سے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے مراد کی قربت میں جو موتی سمیٹے وہ انہوں نے راقم الحروف کی فرمائش پر ہم سب کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔